Pakistan most dangerous for journalists: Monitor
With 12 journalists killed in 2010, Pakistan tops the list of countries where journalists remain in perpetual danger even though democracy returned in 2008, according to the Media Monitor for 2010 launched by South Asia Media Commission simultaneously in Islamabad and Lahore on Tuesday (December 28, 2010).
The Media Monitor, published each year, reports on the quality of journalism as it develops each year in South Asia, including Pakistan.
A four-member presidium with senior journalist Afzal Khan in the chair released the summary of the Monitor.
Journalist Imtiaz Gul, Executive Director of Center for Research and Security Studies; SAFMA Director Ashfaq Saleem Mirza and journalist Matiullah Jan were three other members of the presidium.
The first part of the report dealing with the situation in Pakistan titled ‘Still dangerous despite Freedom’ states that with 12 journalists and one media worker killed in 2010, Pakistan was among the top position holders in the list of ‘most dangerous countries’ in the world because the media here was increasingly coming under attack and journalists were becoming victims of both state and non-state actors in the Federally Administered Tribal Areas (Fata) and Baluchistan.’
The Monitor adds that half of the journalists died as a result of target killings that had become quite common.
Those killed while performing duties [as journalists] included Ashiq Ali Magsi (Mehran TV), Faiz M. Khan Sasoli (Independent News of Pakistan), Haji Misri Khan Orakzai (of Hangu District), Mujeebur Rahman Siddique (Pakistan), Abdul Hameed Hayatan (Royal TV) M. Khan Sasoli (President Khuzdar Press Club). They were killed while on coverage duty and were specially targeted by murderers, including a number of banned outfits.
The Monitor also highlighted the fact that “death of these journalists showed how difficult and dangerous it had become to file reports in certain areas of the country.”
It was acknowledged in the report, that the Pakistan media had won current freedom after a long democratic struggle, in fact after the restoration of democracy, and that politicians were generally tolerant of the media.
Shared By Rafiullah Internews Peshawar
About Me
Wednesday, December 29, 2010
Monday, December 20, 2010
پشاور پریس کلب پر خود کش حملہ ایک سال گزرگیا اے وسیم خٹک


تصویر
کہنے کو تو بادشاہ انصاف پسند اور عوام کے دکھ سکھ کو سمجھنے والا تھا مگر جسمانی طور پر ایک ٹانگ سے لنگڑا اور ایک آنکھ سے کانا تھا۔
ایک دن بادشاہ نے اپنی مملکت کے ماہر مصوروں کو اپنی تصویر بنوانے کیلئے بلوا لیا۔
اور وہ بھی اس شرط پر، کہ تصویر میں اُسکے یہ عیوب نہ دکھائی دیں۔
سارے کے سارے مصوروں نے یہ تصویر بنانے سے انکار کر دیا۔
اور وہ بھلا بادشاہ کی دو آنکھوں والی تصویر بناتے بھی کیسے جب بادشاہ تھا ہی ایک آنکھ سے کانا،
اور وہ کیسے اُسے دو ٹانگوں پر کھڑا ہوا دکھاتے جبکہ وہ ایک ٹانگ سےبھی لنگڑا تھا۔
لیکن
اس اجتماعی انکار میں ایک مصور نے کہا: بادشاہ سلامت میں بناؤں گا آپکی تصویر۔
اور جب تصویر تیار ہوئی تو اپنی خوبصورتی میں ایک مثال اور شاہکار تھی۔
وہ کیسے؟؟
تصویر میں بادشاہ شکاری بندوق تھامے نشانہ باندھے ، جس کیلئے لا محالہ اُسکی ایک (کانی) آنکھ کو بند ،
اور اُسکے (لنگڑی ٹانگ والے) ایک گھٹنے کو زمیں پر ٹیک لگائے دکھایا گیا تھا۔
اور اس طرح بڑی آسانی سے ہی بادشاہ کی بے عیب تصویر تیار ہو گئی تھی۔
کیوں ناں ہم بھی اِسی طرح دوسروں کی بے عیب تصویر بنا لیا کریں
خواہ انکے عیب کتنے ہی واضح ہی نظر آ رہے ہوا کریں!!
اور کیوں ناں جب لوگوں کی تصویر دوسروں کے سامنے پیش کیا کریں.... اُنکے عیبوں کی پردہ پوشی کر لیا کریں!!
آخر کوئی شخص بھی تو عیبوں سے خالی نہیں ہوتا!!
کیوں نہ ہم اپنی اور دوسروں کی مثبت اطراف کو اُجاگر کریں اور منفی اطراف کو چھوڑ دیں...... اپنی اور دوسروں کی خوشیوں کیلئے!!
ابنِ عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ ایک حدیث پاک کا ملخص اور مفہوم ہے کہ
(جو شخص مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا ، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا)
ایک دن بادشاہ نے اپنی مملکت کے ماہر مصوروں کو اپنی تصویر بنوانے کیلئے بلوا لیا۔
اور وہ بھی اس شرط پر، کہ تصویر میں اُسکے یہ عیوب نہ دکھائی دیں۔
سارے کے سارے مصوروں نے یہ تصویر بنانے سے انکار کر دیا۔
اور وہ بھلا بادشاہ کی دو آنکھوں والی تصویر بناتے بھی کیسے جب بادشاہ تھا ہی ایک آنکھ سے کانا،
اور وہ کیسے اُسے دو ٹانگوں پر کھڑا ہوا دکھاتے جبکہ وہ ایک ٹانگ سےبھی لنگڑا تھا۔
لیکن
اس اجتماعی انکار میں ایک مصور نے کہا: بادشاہ سلامت میں بناؤں گا آپکی تصویر۔
اور جب تصویر تیار ہوئی تو اپنی خوبصورتی میں ایک مثال اور شاہکار تھی۔
وہ کیسے؟؟
تصویر میں بادشاہ شکاری بندوق تھامے نشانہ باندھے ، جس کیلئے لا محالہ اُسکی ایک (کانی) آنکھ کو بند ،
اور اُسکے (لنگڑی ٹانگ والے) ایک گھٹنے کو زمیں پر ٹیک لگائے دکھایا گیا تھا۔
اور اس طرح بڑی آسانی سے ہی بادشاہ کی بے عیب تصویر تیار ہو گئی تھی۔
کیوں ناں ہم بھی اِسی طرح دوسروں کی بے عیب تصویر بنا لیا کریں
خواہ انکے عیب کتنے ہی واضح ہی نظر آ رہے ہوا کریں!!
اور کیوں ناں جب لوگوں کی تصویر دوسروں کے سامنے پیش کیا کریں.... اُنکے عیبوں کی پردہ پوشی کر لیا کریں!!
آخر کوئی شخص بھی تو عیبوں سے خالی نہیں ہوتا!!
کیوں نہ ہم اپنی اور دوسروں کی مثبت اطراف کو اُجاگر کریں اور منفی اطراف کو چھوڑ دیں...... اپنی اور دوسروں کی خوشیوں کیلئے!!
ابنِ عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ ایک حدیث پاک کا ملخص اور مفہوم ہے کہ
(جو شخص مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا ، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا)
Subscribe to:
Posts (Atom)