About Me

My photo
Peshawar Based Journalist And Lecturer Of Media Studies

Monday, December 20, 2010

پشاور پریس کلب پر خود کش حملہ ایک سال گزرگیا اے وسیم خٹک

22دسمبر 2009 کا دن میری زندگی کا ایک بدترین دن ہے جس دن والدین اور گھرو الوں کی دعاؤں سے ہم کو نئی زندگی ملی ورنہ آج ہم بھی منوں مٹی تلے ہوتے یہ وہ دن تھا جس دن پشاور پریس کلب پر خودکش دھماکہ ہوا تھا جس میں چار افراد سمیت بیس افراد زخمی ہوئے تھے مگر جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے کیونکہ دھماکے سے کچھ لمحے پہلے ہم پریس کلب میں داخل ہوئے تھے اس دن کا تصور کرتے ہی آج بھی میرے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں وہ تصور ہی دل کو ہلا دینے کے لیئے کافی ہوتا ہے وہ دن بھی عام دنوں کی طرح ایک دن تھا جب روزنامہ مشرق میں رپورٹر کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے تھے اور ہمارے ذمے پریس کلب کی روٹین نیوز بھی ہوا کرتی تھی پریس کلب وہ جگہ ہے جہاں عموما غریب لوگ اپنے مسائل کو حکومتی زعماء تک پہنچاتے ہیں جن کوحکومتی اداروں پولیس ،واپڈا یا دیگر محکموں سے مسائل ہوتے ہیں وہ اپنا دکھڑا اخباری نمائندوں کے سامنے بیان کرتے ہیں جن کو اخباری نمائندے نمایاں جگہوں پر کوریج دیتے ہیں بہت سو کے مسائل حل بھی ہوجاتے ہیں اور بہت سو کے مسائل اعلی حکام کے پاس پہنچ جاتے ہیں یا پھر سیاسی رہنماء عوام کو حکومتی نمائندوں کے کرپشن کو بے نقاب کرنے کے لئے پریس کلب کا سہارا لیتے ہیں پریس کلب ہر علاقے میں عام کی نمائندگی کے لئے بناہو اہوتا ہے کیونکہ ان کا ڈائریکٹ حکومتی عہدیداروں سے رابطہ نہیں ہوتا تو وہ اخبارات کا سہار ا لے کر حکومتی کرتا دھرتاؤ کو باخبر کرتے ہیں اور پشاور پریس کلب کو ایک تاریخی حثییت حاصل ہے پشاور پریس کلب کی تاریخی حیثیت پر اگر نظر دوڑائی جائے تو یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ سیاسی جدوجہد کی 1960میں پشاور پریس کلب محکمہ اطلاعات کی وساطت سے سابقہ ڈینز ہوٹل میں پریس روم کے نام سے قائم ہو اتھا اور اپر1964میں چوک یادگار میں واقع میونسپل کمیٹی میں پریس کلب قائم ہوا 1967میں میونسپل کمیٹی منہدم ہونے کے بعد پشاور 8سال تک پریس کلب سے محروم رہا 1974میں عجائب گھر کے ایک حصے میں باقاعدہ طور پر پریس کلب قائم کیا گیا جس کے بعد 1995/96میں سردار مہتاب خان عباسی کی حکومت نے پریس کلب کے لئے زمین دینے کی منظوری دی اور2001میں اس نئے پریس کلب کا افتتاح ہوا یوں تو ہر دور میں پریس کلبوں پر حملوں اور تھوڑ پھوڑ کے واقعات رونما ہوئے ہیں پشاور پریس پر بھی امیر مقام اور اس کے ساتھیوں نے ایک بار حملہ کیا تھا جس کامقدمہ آج بھی چل رہا ہے مگر ملکی تاریخ میں پریس کلب پر خودکش حملے کی مثال نہیں ملتی اوریوں پشاور پریس کلب پر ہونے والا خودکش حملہ ملکی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلے واقعے کی حیثیت اختیار کر گئی ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پشاور پریس کلب کا ایک اہم رول رہا خواہ وہ گلف وار ہو افغان روس کی جنگ ہو یا پھر 9/11کے بعد کے حالات ہوں پشاور پریس کلب اور اس کے ساتھ منسلک صحافیوں نے جان کوہتھیلی پر رکھ کر جنگ کی رپورٹنگ کی اور عوام کو صحیح خبریں فراہم کی الیکٹرانک میڈیا کے آنے کے بعد اس کی اہمیت اور بڑھ گئی کیونکہ صحافیوں کی تعداد پہلے سے بڑھ گئی پہلے بہت کم تعداد میں صحافی پریس کلب کا رخ کرتے تھے مگر الیکٹرانک میڈیا کے آنے کے بعد کیمرہ مین ، اور ٹی وی کے لئے رپورٹنگ کرنے والے صحافی بھی میدان میں کھود پڑے اورمشرف دور حکومت میں جب دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کی گئی تو میڈیا کا رول مثبت ہی رہا اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ پرائی آگ میں پاکستان اور بالخصوص صوبہ خیبر پختونخواہ کو دھکیلا گیااور یہ وہ وقت تھا جب صرف خیبر پختونخواہ میں ہر تیسرے چوتھے روز خودکش حملہ ہونے لگتا جس میں بے گناہ افراد سیکورٹی فورسسز جان سے ہاتھ دھونے لگتے صحافی ایک دھماکے کی کوریج سے فارغ ہوتے تو دوسرے دھماکے کی رپورٹنگ کے لئے نکل پڑتے جس نے بھی 2008اور 2009میں پشاور میں صحافت کی ہے اسے اندازہ ہوگا کہ وہ کیسے دن تھے ان کو کہاں کہاں پر رونا نہیں آیا پھر وہ قت بھی آیا جب آنسو خشک ہوگئے دل مردہ ہوگئے تھے اور صرف رپورٹنگ سے غرض ہوتی باقی نعشیں پڑی ہوتی مگر دل میں ہوک نہیں اٹھتی کیونکہ دھماکے روٹین کے ہوگئے تھے اور جب کوئی کام روٹین کا ہوجائے تو پھر بندہ عادی ہوجاتا ہے بلکہ ہم نے تو اپنے ایسے دوستوں کو بھی دیکھا جب دھماکہ ہوجاتا اور معلومات ہوتی کہ چار سے پانچ بندے شہید ہوئے ہیں تو کہتے یار یہ تو پٹاخہ تھا اتنا زروردار نہ تھا اور جب کوئی خطرناک دھماکے کی اطلاع ہوتی تو ذہن ماؤف ہوجاتا ہم کو چارونا چار دھماکے کی جگہ پر ساتھی رپورٹر کے ساتھ جانا پڑتا وہاں جائے وقوعہ پر جو حالات ہوتے وہ بھی قابل غور ہوتے لوگوں میں انسانیت نا م کی چیز ہی غائب ہوگئی ہے وہ اپنے مفاد کے لئے کیا کیا نہیں کرتے یہ دیکھ کر دماغ میں گھنٹیاں بجتی کہ دھماکے میں ایک شخص مرا پڑا ہے اور یہ ان کے جیب کی تلاشی میں مصروف ہوکر اپنے لئے سامان کر رہا ہے بہت سے افراد تو پولیس کے ہتھے چڑھ بھی گئے تھے عوام کو سیکورٹی فورسسز کہتی کہ جائے وقوعہ پر نہ جاؤ کیا پتہ عسکریت پسند دوسر ادھماکہ کر لیں مگر عوام کو تو سیر کرنے کے لئے ایک جگہ مل جاتی پشاور میں کون سی جگہ بچی ہے جہاں دھماکہ نہ ہوا ہو بازار،مسجد، پولیس اسٹیشن سکول ، ہوٹل ، سی آئی اے کی بلڈنگ ، بینک ، امام بارگا ہ اور صحافی برداری کی جگہ پریس کلب بھی نشانہ بن گیا دھماکے سے دو تین مہینے پہلے ہی یہ باتیں گردش کر رہی تھیں کہ صحافی بھی ٹارگٹ ہیں جس کی صحافیوں کو دھمکیاں ملی تھیں جس کے بعد کلب کی سیکورٹی بڑھانے کے اقدامات کئے گئے تھے اور ہر قسم کے مظاہروں پر پابندی عائد کی گئی تھی دھماکے سے دو روز قبل باہر ایک کالج کے طلباء کا مظاہر ہ ہورہا تھا جس سے رپورٹرز کو پریس کلب کے صدر شمیم شاہد اور ڈیوٹی پر مامور پولیس اہلکاروں نے منع کیا تھاکہ اطلاع ہے کہ کالج کے یونفارم میں خودکش بمبار داخل ہوچکا ہے خوش قسمتی سے دھماکے کے وقت کوئی مظاہرہ نہیں ہورہا تھا اور صحافیوں کی بڑی تعدا د چترال کے سابق ایم این اے عبدالاکبر چترالی کے پریس کانفرنس کے لئے کلب میں موجودتھی اور کچھ ساتھی پولیس لائن میں پریس برینفنگ کے خاتمے کے بعد راستے میں تھے کہ 11بجکر43 منٹ پر خودکش دھماکے نے پشاور پریس کلب کے درودیوار لرزادیئے اگر خطرات موجود تھے تو صحافی برادری کے مشران جھوٹ کیوں بولتے تھے کہ ایسی کوئی بات نہیں ہماری طالبان تحریک کے رہنماؤں سے باتیں ہوتی ہیں وہ کہتے ہیں کہ صحافی ہمارے ٹارگٹ پر نہیں ہیں سو اپ لوگ بے دھڑک اپنی غیر جانبدارانہ رپورٹنگ کرتے رہیں اور یوں خطرے کو سب اچھا سمجھ کر ٹالا جاتا رہا یک دن ہماری آپس میں گفتگو ہوتی رہی کہ پریس کلب پر حملے کا خطرہ موجود ہے کیونکہ اخبارات حکومت کا ورژن لیتے ہیں اور طالبان کا اتنا ورژن نہیں لیتے کیونکہ اخبارات کو بھی پابند کیا گیا تھا کہ وہ ان عسکریت پسندوں کو ہیرو بنا کر نہ پیش کریں کہ جوں ہی دھماکہ ہو ا ان کے ترجمان کا بیان آجاتا کہ یہ ہم نے کیا ہے حالانکہ ان کو بھی بعض دھماکوں کا علم تک نہ ہوتا اور ذمہ داری قبول کر لیتے اور یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں اور خاص کر قبائلی علاقوں میں کتنی ہی غیر ملکی ایجنسیاں ملک کو توڑنے کے لئے کام کر رہی ہیں بھارت، اسرائیل ، امریکہ ،ایران ،افغانستان کی خفیہ ایجنسیاں اپنی سعی پوری کو شش میں لگی ہوئی ہیں کہ وہ پاکستان کو ڈی سٹیبلائز کریں اور اس مقصد کے لئے وہ بم دھماکے کرنے میں مصروف ہیں مگر تحریک طالبان کے رہنما ذمہ داری لے کر سارا قصہ ہی خراب کر دیتے تھے یہ بات بھی روز روشن کے لئے عیاں ہے کہ عسکریت پسند تنظیموں کے بھی غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ تعلقات ہیں اور وہ بھی ان کو استعمال کرنے کے لئے پوری زور بازو لگا رہے ہیں بات پشاور پریس کلب پر حملے کی ہورہی تھی تو بہت سے صحافیوں کو معلوم تھا کہ کسی بھی وقت پریس کلب پر حملہ ہوسکتا ہے مگر انہوں نے اس کو راز ہی رکھا صرف اس مقصد کے لئے کہ جب بلاسٹ ہوگا تو ہم کوریج سب سے پہلے کریں گے ایک نجی ٹی وی چینل کے بڑے نے اس مقصد کے لئے اپنی ڈی سی این جی کو صرف اس مقصد کے لئے وقف کیا تھا کہ وہ پریس کلب کے نزدیک ہی رہے اور دوماہ تک وہ اپنے فرائض انجام دیتے رہے مگر عین بلاسٹ کے وقت وہ دھماکے کی لائیو کوریج نہ کر سکے اور پھر عملے کو خوب سننی پڑی بتانے کا مقصد یہ ہے کہ دھماکے کے بارے میں اطلاع موجود تھی مگر اس کو اتنا سیریس نہیں لیا گیا جس کی وجہ سے چار قیمتی جانوں کا ضیاع ہوگیا جس میں ریاض چاچا اور اکاؤنٹنٹ محمد اقبال سمیت دو مزید لوگ جو پریس کلب کے سامنے سے اسی وقت گزر رہے تھے لقمہ اجل بن گئے دھماکے میں کسی بھی صحافی کو نقصان نہیں پہنچا تھا اگر خودکش حملہ آور کب کے اندر آکر عین پریس کانفرنس کے دوران خود کو اڑاتا تو بہت زیادہ نقصان ہوتا اس خودکش دھماکے میں ایک خاتون سمیت چار افراد جاں بحق ہوئے تھے جبکہ بیس سے زیادہ زخمی ہوئے تھے اس حملے سے تھوڑی دیر پہلے ہم گاؤں سے پشاور آئے تھے اور پیدل ہی ڈینز پلازہ سے پشاور پریس کلب تک سفر کیا تھا اور راستے سے ہی گھر کو فون کردیا کہ میں پریس کلب پہنچ گیا ہوں لہذا کوئی فکر نہ کریںیہی کوئی 11:36پر ہم پریس کلب میں داخل ہوگئے وہاں ہماری ملاقات ریاض الدین چاچا سے نہیں ہوئی البتہ دوسرے دوست وہاں پر موجود تھے ان سے مصافحہ کیا اور نہیں مذاقا کہا کہ ادھر ادھر نظر رکھا کریں ایسا نہ ہو کہ جنت گل یہاں داخل ہوکر ہمیں ساتھ لے جائے خودکش حملہ آور جو خود کو جنت کا دعویدار سمجھتا ہے اسے ہم دوستوں نے جنت گل کا نام دیا تھاجب کبھی دھماکہ ہوتا ہم کہتے کہ جنت گل نے پھر کام کرڈالا۔تو ان کا موقف تھا کہ بے فکر رہیں آپ اپنی پیشہ ورانہ ڈیوٹی انجام دیں ہماری پوری کوشش ہوگی کہ جنت گل آپ تک نہ پہنچے انہوں نے قہوے کی آفر کی مگراس سے پہلے میرا ایک دوست پریس کلب پہنچ گیا تھا جس نے کہا تھا کہ میں کینٹین سے چائے لے کر لان میں جارہا ہوں آپ آجاؤ وہاں ،میں نے ان سے اجازت لی اور پریس کلب کے انٹرنیٹ کیفے میں پہنچ گیا جہاں پر دوسرے ساتھی بیٹھے ہوئے تھے ہمارے اخبار روزنامہ مشرق کے فوٹو گرافر گلشن عزیز جو مجھ سے پہلے پریس کلب میں بیٹھے کچھ تصویروں کو چیک کر رہے تھے انہوں نے مجھے کہا کہ وسیم ذرا میری ای میل آئی ڈی چیک کرو میں دفتر تصویریں بھیجنا چاہتا ہوں جاتی نہیں ہیں ،اسکی ای میل آئی ڈی چیک کی اور تصویروں کو ای میل کردیااور اپنی ایک میل آئی چیک کرنے کے بعد جوں ہی دروازہ کھولنا چاہا دھماکے کی آواز نے کانوں کے پردے پھاڑ دیئے سب حیرانی سے حواس باختہ ہوکر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب کیا کیا جائے مارے ہیبت کے ہم سے دروازہ نہیں کھل رہا تھا تھوڑا دروازہ جو دھماکے کے دوران کھلا تھا اس وقت چھرے صحن کی طرف شنگ کی آوازوں کے ساتھ جاتے ہوئے دکھائے دیئے انٹیرنیٹ کیفے کے باہر ٹی وی لاؤنج ،لائبریری کے شیشے ٹوٹے پڑے تھے اور پریس کلب کا ملازم امت خان کاکا زمین پر پڑے تھے جو کینتین سے کسی کے لئے چائے لارہے تھے کہ دھماکے کی وجہ سے زمین پر گر گئے مگر اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا ہم جوں ہی باہر نکلے ایک قیامت خیز منظر ہمارے سامنے تھا آنکھوں سے آنسو رواں تھے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر یہ ہوا کیا ہے اس وقت بھی اپنے کچھ صحافی دوستوں کی بے حسی دیکھنے میں آئی جب وہ دھماکے کی نیوز اپنے ٹی وی چینل کو دے رہے تھے حالانکہ ہمارے ساتھی زمین پر پڑے موت و زندگی کی کشمکش میں تھے اور ہمارے فوٹو گرافر بھائیوں میں بھی کچھ ایسے تھے جن سے انسانیت چلی گئی تھی وہ اپنے ساتھیوں کی تصویریں کھینچنے میں مصروف تھے شہید صفت غیور دھماکے کے پانچ منٹ کے بعد پہنچ گئے تھے جس نے ریسکیو آپریشن شروع کردیا تھا دھماکے سے خودکش بمبار کے چھیتڑے اڑ گئے تھے اور پریس کلب کے گیٹ سے متصل دوکمرے مکمل طور پر تباہ ہوگئے تھے دھماکے کے بعد بم ڈسپوذل سکواڈ نے رپورٹ دی کہ خودکش حملہ آور نے دس کلو گرام وزنی بارودی جیکٹ پہنی ہوئی تھی جس میں کم ازکم دو کلو چھرے تھے پولیس کے مطابق خودکش حملہ آور کے لمبے بال اور چھوٹی داڑھی تھی اور اس کے حلیے سے لگتا تھا کہ وہ وزیرستان کا ہے بمبار نے پیروں میں جرابیں اور چارسدہ کی بنی سیاہ رنگ کی چپل پہن رکھی تھی خودکش بمبار کلب کے اندر داخل ہوچکا تھا مگر شک کی بنا پر جب حوالدار نے اس کی پھر تلاشی لینی چاہی تو اس نے خو د کو دھماکے سے آڑادیا جس سے ریاض چاچا کے جسم کے چھیتڑے اڑ گئے اور درجنوں صحافیوں کو موت کے منہ میں جانے سے روک دیا،وہ جو ہر کسی کو کہتے تھے کہ آپ لوگ فکر نہ کرو جب بھی کوئی ایسی حرکت کرے گا پہلے اسے میری لاش پر سے گزرنا ہوگا پھر اپ لوگوں کی بھاری ہوگی جب تک میں یہاں پریس کلب کی گیٹ پر ڈیوٹی دونگا کسی کو بھی مجال نہیں ہے اور یہ بات ریاض چاچا نے سچ کرکے دکھائی اور خود موت کو گلے سے لگا کر ہم سب کی جان پچا لی ورنہ آج ہم میں سے بہت سے ساتھی آج یہ سال نہ دیکھتے اس دھماکے میں اکاوئنٹنٹ میاں اقبال شاہ بھی شہید ہوگئے تھے جو سردی کے باعث باہر گیٹ کے نزدیک بیٹھے ہوئے تھے کہ دھماکے کی زد میں آگئے اورہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لا کر جام شہادت نوش کرگئے پشاور پریس کلب میں ہونے والے دھماکے میں اے جی آفس پشاور کی خاتون آڈیٹر چالیس سالہ روبینہ شاہین دختر غلام غوث ساکن اندورن گنج محلہ عیسی نعلبند بھی شکار ہوگئی تھی جو گزشتہ بیس سال سے اے جی آفس میں خدمات انجام دے رہی تھی وہ دھماکے کے روز دفتر سے چھٹی کے بعد رکشہ میں گھر جارہی تھی کہ پشاور پریس کلب کے سامنے سے گزرتے ہوئے دھماکے کی زد میںآگئی اور حرکت قلب بند ہوجانے کیوجہ سے دم توڑ گئی متوفیہ کے والدین بیس سال پہلے دار فانی سے کوچ کر گئے تھے اور روبینہ نے اپنے بہن بھائیوں کی کفالت کا بیڑہ اٹھا یا ہوا تھا مگر زندگی نے وفا نہیں کی اور پشاور پریس کلب دھماکے کی نذر ہوگئی دھماکے میں صحافیوں پر جان نچھاور کرنے والے ریاض الدین کا تعلق پٹوار بالا کے ایک زمیندار گھرانے سے تعلق تھا اچھی خاصی جائیداد کے باوجود اپنی شوق کی خاطر پولیس میں بھرتی ہوا تھا ان کے خاندان والوں نے کئی بار اسے پولیس کی نوکری چھوڑنے کا کہا تھا مگر وہ کہتے تھے کہ موت سے ڈر کر بھاگنا بزدلی ہے اور مردانگی کے خلاف ہے اس کے دو بچے محمد عزیر،اور شہیر دونوں اس سانحے کی وجہ سے اپنے باپ کے سائے سے محروم ہوگئے ریاض الدین نے 1986میں پولیس میں ملازمت اختیار کی تھی جبکہ میاں اقبال شاہ جس نے کچھ عرصہ قبل ہی پریس کلب میں ملازمت اختیار کی تھی ہر کوئی اسے اسکی محنت کی وجہ سے پسند کرتاتھا اس کی موت سے جو خلا اسکے گھر والوں کے لئے پیدا ہوئی وہ کوئی نہ پر کر سکے گا ایک سال گزرنے کے باوجود پشاور پریس کلب پر خودکش دھماکے کی دھماکے کی زمہ داری کسی بھی تنظیم نے نہیں لی اور نہ ہی اس دھماکے کے ملزموں کو گرفتار کیا جاچکا ہے پریس کلب انتظامیہ نے بھی اس میں کوئی خاص رول ادا نہ کیا اور نہ ہی حکومت نے صحافیوں کے مجرموں کو پکڑنے میں انکی مدد کی اس ایک سال میں صرف اتنا کیا گیا کہ پشاور پریس کلب کو محفوظ بنانے کے لئے بم پروف کمرے بنایئے گئے باقی کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں صحافی آج بھی خطرے کے سائے تلے اپنی پیشہ ورانہ ڈیوٹیاں انجام دے رہے ہیں وہ وار زون میں جان کو خطرے میں ڈال کر عوام کو صحیح معلومات فراہم کرنے کے لئے کوششوں میں مصروف ہیں حکومت کو اور پریس کلب انتظامیہ اس بارے میں سوچنا چاہیئے خدا نہ کرے پھر سے ایسا واقعہ ہوگیا تو اس کے نتائج بہت بھیانک ہونگے

No comments:

Post a Comment