About Me

My photo
Peshawar Based Journalist And Lecturer Of Media Studies

Saturday, September 12, 2009

Trafic Wardens In Peshawar

صوبائی دارالحکومت پشاورمیں روزبروزبڑھتی ہوئی ٹریفک اوراالودہ فضاءنے شہریوں کوعذاب میں مبتلاکردیاہے ۔مصروف شاہراہوں پرجن میں صدرروڈ،خیبرروڈ،شیرشاہ سوری روڈ،ورسک روڈسمیت دیگرسڑکوں پرٹریفک کاجم غفیرنظرآتاہے جگہ جگہ ٹوٹے ہوئے اشارے ،ٹریفک کااژدھام اورگاڑیوں کازہریلہ دھواں عوام کےلئے عذاب بن کررہ گیاہے ۔عالمی تنظیم ڈبلیوایچ اوکے مقررکردہ معیارسے 20گناہ زیادہ آلودگی ہوچکی ہے ایک دورتھاجب پشاورجیسے شہرمیں گاڑیاں عام نہیں تھیں اکادکاگاڑیوں سے ٹریفک کے مسائل تھے اورنہ ہی آلودگی ہوکرتی تھی ،فضاصاف اورستھری ہواکرتی تھی اورپھولوں کاشہرپشاورخوشبوﺅں می رچابساہوتاتھامگررفتہ رفتہ لوگوں کی قوت استعدادبڑھتی گئی اورہرشخص گاڑی لینے لگاجس سے ٹریفک میں اضافہ ہوتاگیااورہرسال اس میں اضافہ ہوتاجارہاہے ۔ٹریفک میں بے تحاشااضافے کی وجہ سے مسائل پیداہونے شروع ہوئے تومنصوبہ بندنہیں کی گئی بلکہ ہمیشہ سے ہی پاکستان میں منصوبہ بندی کافقدا رہاہے کوئی بھی کام پلاننگ کے تحت نہیں ہوتا،ہرکام بدنظمی اورابتری کاشکارہے ،مصروف ترین شاہراہوں پرٹریفک کامسئلہ ناسوربن چکاہے ۔روزبروزبڑھتی ہوئی ٹریفک نے نہ صرف بہت سے مسائل کوجنم دیاہے بلکہ پشاورشہرکے باسیوں کامزاج بھی متاثرکردیاہے ،ٹریفک اورٹرانسپورٹ میں بتدریج اضافہ مشکلات اورمسائل میں اضافے کاباعث بناہے مختلف لیزنگ کمپنیوں اوربینکوں کے ذریعے اوسط درجے کی شہری بھی اپنی گاڑی کی سہولت سے فیضیاب ہوئے ہیں ۔پچھلے سال پشاورمیں۔پانچ۔لاکھ گاڑیاں رجسٹرڈہوئی ہیں ،ٹریفک کے نظام کوکنٹرو ل کرنے کےلئے نیاماڈل ٹریفک پلان بنایاگیامگراب تک اس نظام نے کوئی اثرنہیں چھوڑانئے ٹریفک وارڈنزجس میں بعض پرانے اہلکاروں کوتربیت دی گئی ہے کو شہربھرکے چوراہوں پرتعینات کردیاگیاجن سے توقع کی جارہی تھی کہ وہ شہرکے ٹریفک جام کے مسائل پرقابوپالیں گے کیونکہ اس سے قبل ٹریفک پولیس کی کرپشن اوررویے سے عوام عاجزآچکی تھی ،تیل کی قیمتوں میں اضافے ٹریفک کے اژدھام کے ساتھ ساتھ شہریوں کوپولیس کانارواسلوک اورنامناسب رویہ بھی برداشت کرناپڑتاتھاجوآج بھی عوام کوبرداشت کرناپڑرہاہے مگرپہلے کی نسبت اس میں تھوڑی بہت کمی واقع ہوئی ہے ۔نئے ماڈل ٹریفک پلان کوایک سال سے زائدکاعرصہ گزرچکاہے اس میں ٹریفک اہلکاروں کوبھی کافی مشکلات کاسامناکرناپڑرہاہے اورابھی تک وہ عوام کااعتمادحاصل کرنے میںناکام ہے اگرچہ یہ ٹریفک وارڈنزاپنے کام کےلئے پرعزم اورپرجوش دکھائی دیتے ہیں مگرعوام کی رویے کی وجہ سے ان کوبھی تکلیفات کاسامناکرناپڑرہاہے کیونکہ کوئی بھی قانون کی پاسداری نہیں کررہاعوام ان وارڈنزکے ساتھ بدتمیزی کے ساتھ پیش آتے ہیں جس سے ٹریفک اہلکارپریشانی کاشکارہے ۔پولیس اہلکاروں کی چوکوں پرتعیناتی کے باوجودشہربھرکے مصروف چوراہوں میں گداگروں کاسیلاب امڈآیاہے جونہی ٹریفک سگنل بندہواکوئی نہ کوئی گداگرآپ کاراستہ روکے کھڑاہوگایاپھرکوئی بچہ سامان فروخت کرتے ہوئے سٹاپ کوسیل پوائنٹ بنالے گا۔صوبے کے حالات کی تناظرمیں یوں گداگروں کادندناتے پھرنااورٹریفک سگنل پران کاجمگھٹاکسی بھی ممکنہ تخریب کاری اوردہشت گردی کاپیش خیمہ بن سکتاہے ٹریفک پولیس اہلکاروں ان گداگروں اورخوانچہ فروشوں کوسڑکوں سے دوررکھنے کےلئے خصوصی آرڈرزدئیے گئے ہیں مگریہ اہلکاران کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ان کوکنٹرول کرنے میں ناکامی کاشکارنظرآتے ہیں کیونکہ سان کوا۱۱یک ساتھ دودوکام کرنے پڑتے ہیں ایک طرف ٹریفک کوکنٹرول کرناپڑتاہے تودوسری جانب گداگروں کوسگنلزسے ہٹاناہوتاہے ۔ایک طرف گداگروں کےلئے دردسربنے ہوئے ہیں تودوسری جانب صوبائی وزراءکاوی آئی پی موومنٹ ان کےلئے دردسرثابت ہوتاہے ۔دن میں کئی کئی مرتبہ کسی نہ کسی وزیرکےلئے ٹریفک کے نظام کوتعطل کاشکارکرناپڑتاہے کیونکہ ان شاہراہوں کووزیرمحترم کے گزرگاہ کاشرف حاصل ہوتاہے اورہرمرتبہ عوام کوہی پریشانی اٹھانی پڑتی ہے ۔وی آئی پی پروٹوکول کےلئے ٹریفک کے الیکٹرانک سگنل کوکبھی کبھاربندکیاجاتاہے اورٹریفک کومینولی کنٹرول کیاجاتاہے ۔ٹریفک کے بہاﺅمیں بندش ٹریفک کے رش کاسبب بنتی ہے اورٹریفک وارڈنزکےلئے ٹریفک کاسیلاب کوروکنااورسنبھالنامشکل ہوجاتاہے اسی طرح قانون کے اندرکا م کرنے والے قانون کوتوڑنااپنافرض سمجھتے ہی اورروزانہ کوئی نہ کوئی بااثرشخص قانون کوتوڑکرٹریفک میں خلل پیداکرتاہے جن کوکوئی روکنے ٹوکنے والانہیں اس وقت پشاور میں گزرتے ہوئے ہر گھنٹے کے ساتھ سڑک پر آٹھ نئی گاڑیوں کا اضافہ ہورہا ہے۔ اور اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ٹریفک مسائل میں اضافے کی رفتار کیا ہے۔پاکستان میں ہر قسم کی موٹر گاڑیوں کی تعداد پیتالیس لاکھ کے قریب ہے جبکہ اس تعداد کا تقریبا ایک تہائی یعنی چودہ لاکھ گاڑیاں صرف پشاور میں چلتی ہیں۔ ایک جانب تجاوزات بڑھ رہے ہیں اور دوسری جانب پارکنگ کا انتظام نہیں ہے جس سے سڑکیں تنگ اور ٹریفک جام رہتا ہے۔ مرکزی، صوبائی اورپشاور کی سٹی حکومت نے کئی منصوبے شروع کیے ہیں۔ لوگ بڑی عمارتیں بناتے ہیں لیکن نقشے کے مطابق پارکنگ نہیں بناتے۔ دنیا میں سگنل سسٹم ایسا ہوتا ہے کہ مناسب رفتار سے چلنے والی گاڑی کو تمام سگنل کھلے ملتے ہیں لیکن پشاور میں ایسا نہیں ہے پشاو ر میں ٹریفک کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ بسوں کے ڈرائیور مسافروں کو اٹھانے کے لیے جہاں مسافر ہاتھ دیتا ہے گاڑی روک دیتے ہیں۔ٹریفک اہلکاروں کے رشوت لینے کے بارے میں ایک ٹیکسی ڈرائیورگل شیر نے کہا کہ زیادہ تنخواہوں کے باوجود بھی مختلف بہانوں سے پولیس اہلکار پیسے مانگتے ہیں اور وہ چالان کی بھاری رقم سے بچنے کے لیے پندرہ بیس روپے ان کی جیب میں ڈال دیتے ہیں، انہوں نے کہا کہ ٹریفک جام کرنے کا سب سے زیادہ ذمہ دار بسوں، کوچز، منی بسوں اور ٹرکوں کے ڈرائیور ہیںاور بڑی ذمہ داری ٹریفک انتظامیہ کی بھی ہے۔ ان کے مطابق کئی بار انتہائی ایمرجسنی کی صورت میں ایمبولینس کو راستہ نہیں ملتا ارو ٹریفک والے اس کا نوٹس نہیں لیتے جس کی وجہ سے بعض اوقات مریض ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی مر جاتے ہیںحکومتی سطح پرٹریفک اورٹرانسپورٹ کی بہتری کےلئے جواعلانات سننے میں آئے ہیں وہ محض نعرے ہی ثابت ہوئے ہیں ان کے کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آئے ۔اس میں شہریوں کارویہ بھی نہایت ہی مایوس کن ہے ۔اس سال قانون کی خلاف ورزی کی مدمیں ہونے والے چالان کی شرح پچھلے سالوں سے زیادہ رہی ،ٹریفک پولیس کوگوکہ تنخواہیں بڑھادی گئیں ہیں مگرعوام کی جانب سے ان اہلکاروں کے خلاف بھی شکایتیں سننے میں آئیں کہ صرف وردی بدل گئی ہے چہرے اورکرتوت وہی پرانے ہیں ۔اب بھی اہلکاردھڑلے سے کمائی کررہے ہیں جس کاکوئی تدارک نہیں کیاجاسکتا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ قومی سطح پرایسی مہم چلائی جائے جس میں عوام کوباورکرایاجائے کہ وہ قانون کی پاسداری کریں کیونکہ یہ پرامن معاشرے کےلئے جنرلایننک ہے اس کے ساتھ ساتھ موجودہ طبقاتی تقسیم اوروی آئی پی پروٹوکول جیسے عوام کی بھی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے اس ضمن میں ہرشخص کوحکومت کواورمیڈیاکواپناکرداراداکرناہوگا۔ضرورت اس بات کی بھی یقینی ہے کہ ٹریفک کے قوانین سے آگاہی کے اسباق کونصاب میں شامل کیاجائے کیونکہ صرف سڑک پرگاڑی چلانے والانہیں بلکہ پیدل چلنے والابھی دونوں کےلئے قانون کی پاسداری بہرحال ضروری ہے ۔
سائیڈ سٹوری
پشاور شہر میں اس وقت کینٹ ،کوہاٹ روڈ،خیبر بازار،شیرشاہ سوری روڈسمیت گمج ،کوہاٹی اور جیل روڈ پر صبح ہی سے گاڑیوں کا رش شروع ہوجاتا ہے شیر شاہ سوری روڈ پر پریس کلب کے سامنے روز دس بجے سے تین بجے تک مظاہروں کی بھرمار ہوتی ہے جس کی وجہ سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے اسی طرح وزراءکی صوبائی اسمبلی آمد کی وجہ سے جیل روڈ پر بھی ٹریفک ہر وقت جام رہتی ہے اور اس کا اثر پورے شہر کی شاہراہوں پر اثر پڑتا ہے شہر میں ہر روز ہزاروں کی تعداد میں نئی گاڑیوں کی رجسٹریشن ہورہی ہے اس کے علاوہ دوسرے شہروں اور قصبوں سے بھی روزانہ شہر میں ہزاروں کی تعداد میں گاڑیاں داخل ہورہی ہیںیہ گاڑیاں بھی ٹریفک کے مسائل پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہیں شہر مےں غےرقانونی طرےقے سے چلنے والے ان گاڑےوں کے مالکان کے پاس نہ توروٹ پرمٹ اورنہ لائسنس حتیٰ کہ بعض کے پاس رکشے کے کاغذات بھی نہےں ہوتے۔ مقامی تےارکردہ چنگ چی اور صدرروزگااسکےم کے تحت دی جانے والے رکشوں کی تو سرے رجسٹرےشن بھی نہےں ہوئی ہے اور قانون کے رکھوالوں کی پرواکئے بغےرغےرقانونی طرےقے سے شہر کے مخلف سڑکوں پررواں دواںہےں۔ ےہی صورتحال بسوں ،وےگنوں اورمنی بسوں کابھی ہے جن کی کی اکثرےت بھی غےرقانونی طرےقے سے کام کر ہی ہےں لےکن ٹرےفک پولےس اوررےجنل ٹراسپورٹ اتھارٹی نے اس صورت حال پر مکمل خاموشی اختےار کررکھی ہےں اور ابھی تک اس معاملے مےں کوئی کاروائی نہےں کی ہے۔ شہر مےں چلنے والے نجی اور سرکاری گاڑےوں مےں رواں سال کافی حدتک اضافہ ہوگےا ہے جو پچھلے سال کے سوفےصد بنتاہے۔ شہر میں تاجر برادری نے دکانوں کے آگے تھڑے قائم کر رکھے ہیں جب کہ ان کی گاڑیاں بھی ان کے دکانوں کے سامنے کھڑی ہوتی ہیں جس سے بھی ٹریفک کے نظام میں خلل پیدا ہورہا ہے تجاوزات کی بھر مارکی وجہ سے جابجا ٹریفک جام رہتی ہے جس میں موجودہ حکومت اس ٹریفک کے اژدہام کو کنٹرول کرنے میں مکمل طور پر ناکامی سے دوچار ہوچکی ہے
سائیڈ سٹوری
پشاور میں محکمہ اےکسائز اےنڈ ٹےسےشن کے پاس مارچ2006 سے2007 تک تےن لاکھ کے قرےب گاڑےاں رجسٹر ہو ئیںجبکہ 2007 سے 2008 تک شہر مےںپانچ لاکھ اسی ہزار گاڑےاں رجسٹرڈ ہوئی جس کی تعداد پہلے کی نسبت سو فےصد ذےادہ ہے۔ اےک اندازے کے مطابق پشاور مےں چلنے والے نئی گاڑوےوں مےں اسی فےصدبےنک کی گاڑےاں ہے تاہم اس مےں تعجب کی بات ےہ ہے کہ مختلف حادثات مےں تباہ ہونے والی گاڑےوں کی رجسٹرےشن فہرست محکمہ اےکسائز کے پاس نہےں ہے جس کی آڑ مےں اکثر لوگوں اس رجسٹرےشن پر دونمبر گاڑےاؓں استعمال کررہے ہےں۔پچھلے دوسالوں میں شہر مےں گاڑےوں کی تعداد میں اضافے کی بڑی وجہ بےنکوں کی طرف سے لےز پر دی جانے والی گاڑےاں ہےں جس نے گاڑی کی خرےد کو انتہائی آسان بناےاہے
سائیڈ سٹوری
صوبائی دارلحکومت پشاور میںرےجنل ٹراسپورٹ اتھارٹی نے8243 ٹوسٹروک رکشوں،100 فورسٹروک رکشوں،2316 منی بسوں، وےگنوں جبکہ2560 موٹر کارٹےکسےوں کو روٹ پر مٹ جاری کئے ہےں اور کئی عرصہ سے شہر کے رورل اےرےا مےں نئی روٹ پرمٹ پر پابندی ہے تاہم شہر مےں اس وقت رکشوں کی تعداد پچاس ہزار، موٹر کارٹےکسےوں کی تعداد دس ہزار اور منی اور بڑی بسوں کی تعداد بارہ ہزار سے زائد ہے جو حکومت کے لئے لمحہ فکرےہ ہے ۔
سائیڈ سٹوری
پشاور شہر میں ٹریفک پولیس کی ناکامی میں ایک وجہ پشاور شہر کے مختلف چوکوں میں ٹریفک سگنلوں کی خرابی اور اکثر علاقوں میں سیکورٹی خدشات کے پیش نظر سڑکوں کو بند کرنا ہے جس کی وجہ سے ٹریفک وارڈن ٹریفک کو کنٹرول کرنے سے قاصر ہیں اس وقت سب سے زیادہ سڑک اسمبلی کے نزدیک سورے پل کے ساتھ ،ڈینز پلازہ کے ساتھ ایف سی چوک اور شعبہ بازار میں جام رہتا ہے جس سے عوام کو خاصی تکلیف کا سامنا کرنا پڑرہا ہے پندرہ منٹ کا سفر ایک گھنٹے اور دو گھنٹوں پر محیط ہوگیا ہے ٹریفک کو کنٹرول کرنا پشاور کی ٹریفک وارڈن کی بس سے باہر ہوگیا ہے

Friday, September 4, 2009

مرکزی حکومت این جی اوز کارکردگی مانیٹر کرنے کی ہدایات

مرکزی حکومت نے چاروں صوبوں سمیت ازاد کشمیر میں این جی اوزکی کارکردگی مانیٹر کرنے کے لئے تحقیقات کا آغاز کر لیا جبکہ غیر رجسٹرڈ این جی اوز کے خلاف سخت ایکشن اٹھانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے اس وقت ملک بھر میں غیر قانونی این اجی اوز کی تعداد ایک اندازے کے مطابق ساٹھ ہزار کے قریب ہے جن میں زیادہ تر گھوسٹ این جی اوز صوبہ سرحد اور پنجاب میں ہیں اٹھ اکتوبر 2005 ہولناک زلزلے کے بعد ان این جی اوز کی تعداد میں اضافہ ہواان میں زیادہ تر این جی اوز زلزلہ متاثرین کی مدد اور آباد کاری کے نام پر غیرملکی ڈونر ایجنسیوں سے پیسے بٹورنے کے لئے قائم کی گئی2005سے پہلے ملک بھر میں مجموعی طور پر پانچ ہزار کے قریب رجسٹرڈ غیر سرکاری تنظیمیں کام کر رہی تھیں موجودہ وقت میں وزارت سماج بہبود کے ساتھ پندرہ ہزار کے قریب این جی اوز رجسٹرڈ ہیں صوبہ سرحد میں سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ اس وقت تین ہزار اٹھ سو این جی اوز رجسٹرڈ ہیں جبکہ ایک اندازے کے مطابق 40ہزار غیر رجسٹرڈ این جی اوز صوبہ سرحد اور پنجاب میں موجود ہیں جن میں زیادہ تر صرف ناموں کی حد تک محدود ہیں جن کا کام صرف ڈونر ایجنسیوں سے پیسے بٹورنا ہے پنجاب میں 5338,سندھ میں 5006،بلوچستان میں 1403،آزاد کشمیر میں 329این جی اوز رجسٹرڈ ہیں جبکہ باقی این جی اوز کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں ذرائع کے مطابق بعض این جی اوز کی سرپرستی سیاسی رہنما کررہے ہیں جن کو ڈونرز ایجنسی کافی رقم سالانہ دیتی ہے جن کا ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر ہے ،زیادہ تر این جی اوزتعلیم،چائلڈ ویلفئیر ،خواتین کے حقوق ،قانونی امداد ،خصوصی افراد ،ماحولیات،انسانی حقوق ،امور نوجوانان ،فیملی ہیلتھ ،حفظان صحت کے نام سے رجسٹرڈ ہیں سوات اپریشن کے بعد صوبہ سرحد میں متاثرین کی مدد اور آباد کاری کے نام پر بھی بہت سی این جی اوز نے کام شروع کردیا ہے این جی اوز کی بڑھتی ہوئی تعداد اور کوئی قابل ذکر کارکردگی نہ ہونے کے باعث وزارت سماج بہبود نے گھوسٹ این جی اوز کا ڈیٹا بیس تیار کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے جن کے خلاف جلد کاروائی شروع کردی جائے گی

صوبہ سرحد میں این جی اوز کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر

صوبائی دارلحکومت پشاور میں عوام کے فلاح وبہبود اور ترقیاتی کاموں کے نام پر قائم ہونے والی غیر سرکاری اداروں (این جی اوز) کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے صوبہ سرحد میں اس وقت تین ہزار اٹھ سو سے زیادہ چھوٹی بڑی این جی اوز سوشل ویلفیئر سے رجسٹرڈ ہیں جو مختلف سیکٹر ز میں کام کر رہے ہیں مگر اتنی بڑی تعداد میں این جی اوز کی موجودگی کے باوجودپشاور شہر سمیت صوبہ بھر میں کوئی ترقی نظر نہیں آرہی اس وقت خواتین اور چائلڈ لیبر پر پچاس سے زائد این جی اوز کام کر رہی ہیں مگر ان این جی اوز کی کارکردگی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ پشاور شہر میں چائلڈ لیبر پر چار درجن سے زیادہ این جی او ز کے کام کے باوجود صرف پشاور شہر میں ہزاروں کی تعداد میں سٹریٹ چائلڈ ان کے منہ پر طمانچہ مار رہے ہیں صدر میں خیبر سپر مارکیٹ ،کارخانو مارکیٹ،ہشت نگری،فردوس بازار،حاجی کیمپ اڈہ ،کوہاٹ اڈہ اور دیگر علاقوں میں یہ بے گھر بچے صبح ہوتے ہی ان علاقوں میں گندگی کے ڈھیروں سے کھانے کی اشیاء،شربت کی خالی بوتلیںاور دیگر سامان اٹھانے میں مصروف ہوتے ہیںیہ معصوم سے چھوٹے بچے گھروں میں جاکر گند اور باسی روٹیاں مانگتے ہیں جن کے کاندھوں پر بوریاں یا ہاتھوں میں تھیلے ہوتے ہیںاین جی اوز کے ساتھ ساتھ ایم ایم اے دور میں بننے والا دارالطفال میں ناکافی سہولیات کی وجہ سے وہاں پر مقیم بچوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اس وقت مذکورہ سنٹر میں درجن بھر بچے رہائش پذیر ہیں پشاور میں جو این جی اوز بچوں کے حقو±ق کے حوالے سے کام کر رہی ہیں صرف ہوٹلوں میں سیمیناروں تک ہی محدود ہوگئی ہیں جو صرف وہاں بیٹھ کر زبانی جمع خرچ کرکے اخبارات میں اپنی تصویریں چھاپ دیتے ہیں اور اس مد میں غیر ملکی ڈونر ایجنسیز سے لاکھوں روپے وصول کر رہے ہیں

پشاور میں سیکورٹی سخت کرنے کی ہدایات

پشاور میں سیکورٹی سخت کرنے کی ہدایات
سرحد حکومت نے امن اوامان کی ابتر صورتحال کے پیش نظر غیرسرکاری تنظیموں(این جی اوز )کو سیکورٹی انتظامات سخت کرنے کی ہدایات جاری کرنے کے ساتھ ان کی سیکورٹی کے لئے پولیس کی بھی ڈیوٹیاں لگادی گئی ہیں ذرائع کے مطابق کسی بھی متوقع خطرے کے پیش نظرحکومت نے پشاورمیں قائم تمام غیرسرکاری تنظیموں کوہدایت جاری کی ہے کہ وہ اپنے سیکورٹی مزیدسخت بنائے اس سلسلے میں پولیس کی بھی اضافی ڈیوٹیاں ان کے دفاتر کے سامنے لگادی ہیں گزشتہ روز خفیہ ایجنسیوں نے شاہین ٹاﺅن سمیت دیگر علاقوں میں گشت جاری رکھا اور تمام غیرسرکاری تنظیموں کو سیکورٹی نظام بہتر کرنے کی ہدایات دیں جس کے بعد ان این جی اوز نے دفاتر میں بغیرانٹری کارڈ کے کسی بھی شخص کا آنا بند کردیاہے جبکہ حکومت کی جانب سے ان این جی اوز کے سامنے پولیس اہلکاروں کی ڈیوٹیاں بھی لگادی گیئں ہیں ۔واضح رہے کہ اس سے قبل بھی حکومت کی جانب سے ان اداروں کو سیکورٹی سخت کرنے کی ہدایات جاری کی گئیں تھی جس کے بعد این جی اوز نے پرائیویٹ سیکورٹی گارڈز کی نفری بڑھادی تھی اور خفیہ کیمرے لگالئے تھے مگر حالیہ یو این ایچ سی آر کے اہلکار کے قتل کے بعد حکومت نے ان اداروں کو ایک دفعہ پھر سیکورٹی مزید سخت کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں
صوبہ سرحد میں شرپسند کے ساتھ روابط رکھنے والوں کا ڈیٹا کلیکشن شروع

مرکزی حکومت نے شدت پسندوں کے ساتھ روابط رکھنے والے سرکاری ملازمین کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لئے خصوصی سیل قائم کردیا ہے جس کے لئے حساس اداروں کو ایسے عناصر کی لسٹ تےار کرنے کی ہداےت کی ہے تحقیقاتی سیل چاروں صوبوں میں تحقیقات کرے گی پہلے مرحلے میں سیل نے تحقیقا ت کا آغاز کرتے ہوئے موبائل کمپنےوں سے ان ملازمےن کی تمام سابقہ فون کالزکا رےکارڈ مانگا ہے ۔جس مےں چاروں صوبوں کے انٹےلی جنس ادارے بھی شامل ہےں زرائع کے مطابق چند دن پہلے مرکزی حکومت نے حسا س اداروں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ ملک بھر مےں تعےنات اےسے تمام سرکاری اعلیٰ اور نےچے درجے کی ملازمےن جن کی ماضی اور حال مےں طالبان اور دوسرے شدت پسندوں گروپوں سے راوبط رہے ہوں کی لسٹ تےار کی جائے ور ان کا کھوج لگایا جائے تاکہ ان افراد کے خلاف کاروائی کی جاسکے۔زرائع کے مطابق تحقےقات کو مزےد شفاف بنانے کے لئے ملک کے تمام فون کمپنےوں کو اےسے تمام سرکاری ملازمےن کی سابقہ فون کالز کا رےکارڈ فراہم کرنے کو کہا گےا ہے جس سے ےہ بات مکمل طور پر واضح ہوجائے گی کہ کس سرکاری ملازم کا کس وقت مےں عسکرےت پسندوں کے ساتھ رابطہ رہا ہے اور ان کو کسی قسم کی معلومات فراہم کی گئی ہےں۔ اسلام آباد سمےت ملک کے تمام چاروں صوبوں اور آزاد کشمےر مےں کام کرنے والے اےک حساس ادارے کے اہم شعبے کو خصوصی طور پر ٹاسک دے دیا گیا تاکہ ایسے افسران اور اہلکاروں کو بے نقاب کیا جاسکے جنہوں نے حکومت میں رہتے ہوئے طالبان اور عسکریت پسندوں کا ساتھ دیا بلکہ انہیں بعض خفیہ فیصلے اوردیگر اہم راز بھی دیئے ۔ذرائع کے مطابق اس لسٹ میں صوبہ سرحد اور اس سے ملحقہ قبائلی علاقے اول نمبر پر ہیں جہاں پر کام کرنے والے سرکاری افسران نے عسکریت پسندوں کو ان کے خلاف ہونے والے حکومتی اقدامات سے آگاہ کےا جبکہ بعض موقعوں پر انہوں نے شدت پسندوں کے خلاف کاروائی کرنے سے بھی انکار کردےا تھا جس کی وجہ سے عسکرےت پسند وں کی کاروائیوں میں تیزی دیکھنے میں آئی جس کی وجہ سے متعدد بارسےکےورٹی فورسز کی کاروائےاںناکام ہوئیں۔ زرائع کے مطابق جنوبی وزےرستان مےںکچھ دن پہلے پولےٹکل انتطامےہ کے بعض اہلکاروں نے طالبان کے خلاف کارروائی کرنے سے انکار کردےا تھاسرحد حکومت کی جانب سے پہل کے بعد مرکزی حکومت نے بھی ایسے ملازمین کے خلاف کاروائی کرنے کا اعلان کردیا ہے جن کو نوکریوں سے برخاست کرنے کے ساتھ ساتھان کے خلاف نے ملک کے دےگر صوبوں سے پہل کرتے ہوئے گزشتہ پےر کو شدت پسندوں کے ساتھ روابط رکنے والے سرکاری اہلکاروں کے خلاف سخت کاروائی کرنے کا اعلان کےا ہے
پشاور میں شادی ہال

حکومت کی عدم توجہی اور انتظامی محکموں کی ملی بھگت سے سے شہر بھر کے رہائشی اور کمرشل علاقوں میں قواعد وضوابط کے برعکس درجنوں شادی ہالز قائم ہوگئے ہیں جن کے باعث ٹریفک جام جیسے دیگر مشکلات کے باعث شہریوں کی زندگی اجیرن ہوکر رہ گئی ہے غیر قانونی طور پر قائم ہونے والے شادی ہالوں کے مالکان نے متعلقہ محکموں سے ساز باز کرکے ڈومیسٹک میٹروں پر گیس چوری،بجلی چوری کے علاوہ ایکسائز سمیت دیگر ٹیکسز چوری کرنے کے ذریعے حکومتی خزانے کو نقصان پہنچا رہے ہیں اس وقت پشاور میں ایک اندازے کے مطابق سترسے زیادہ شادی ہال قائم ہیں جن میں زیادہ تر ٹاﺅن تھری میں قائم کئے گئے ہیں بلکہ شاہین ٹاﺅن میں جتنے بھی ہوٹل اور ریسٹ ہاﺅسز موجود ہیں ان میں شادی ہال بھی موجود ہیں اس وقت پشاور بھر میں شادی ہال سڑک کے کنارے تعمیر کئے گئے ہیں جن میں اکثر وبیشتر کی کسی محکمہ میں رجسٹریشن نہیں ہے اور متعدد شادی ہال کسی قسم کے قواعد وضوابط کو پورا ہی نہیں کرتے قواعد وضوابط کے مطابق کسی بھی شادی ہال کے لئے تین کنال کا رقبہ ہونا ضروری ہے اور اس کی کمرشلائزیشن بھی ہونی لازمی ہے کمرشلائزیشن کے لئے بھی ایک کنال کا رقبہ ہونا ضروری ہے اس کے علاوہ شادی ہالز پر کمرشل ٹیکسز کے علاوہ مختلف بجلی ،گیس کے کمرشل میٹر ہونا ضروری ہے لیکن اس وقت شہر بھر میں صورتحال اس کے برعکس ہے اور زیادہ تر شادی ہال موجودہ قواعد وضوابط کی نفی کرتا ہے ذرائع کے مطابق زیادہ تر شادی ہالوں میں محکمہ گیس اور واپڈا کے ساتھ ساز باز کرکے ڈومیسٹک میٹر لگائے گئے جس سے گیس اور بجلی کی چوری جارہی ہے بہت سے ویڈنگ ہال بغیر نقشہ کے تعمیر کئے گئے ہیں جس کے لئے نقشہ پر بننا ضروری ہے

غیر قانونی شادی ہال سی ڈی ایم ڈی اور ٹاﺅن کے عملہ کی ملی بھگت سے چلتے ہیں ایسے لوگ پہلے عملہ کی ملی بھگت سے خاموشی سے بلڈنگ تعمیر کرتے ہیںبعد ازاں شادی ہال قائم کرلیتے ہیں شادی ہالوں کی تعمیر میںمتعلقہ محکموں کی انتظامی ڈیوٹیاں سوالیہ نشان ہے قانونی طورپر چلنے والے شادی ہالز سی ڈی ایم ڈی کے قواعد و ضوابط کے تحت کام کر رہے ہیں اس حوالے سے ٹاﺅن کے ایک اہلکار نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ غیرقانونی شادی ہالوں اورعمارتوں کی تعمیر میں ٹاﺅن کے اہلکار ملوث ہیں ان کی ایماءپر ہی یہ تعمیراتی کام ہوتے ہیں اور اس وقت ٹاﺅن ،اور گلبہار میں درجنوں غیرقانونی شادی ہالز قائم ہیں جو صبح کو سکول ہوتے ہیں اور شام کے وقت ان سے شادی ہال کا کام لیا جاتا ہے جبکہ بعض جگہوں پر خیمہ شادی ہال بھی قائم ہیں جو قانون کی سراسر خلاف ورزی ہے


شادی ہالوں کے نقشہ جات کے حوالے سے قوانین کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ اس وقت ضلعی حکومت کی جانب سے شادی ہالوں کے سلسلے میں کوئی قانون موجود نہیں اور وہ بھی سی ڈی ایم ڈی کی جانب سے شادی ہالوں کے متعلق وضع کردہ قوانین کو ہی اپلائی کرتا ہے قانون کے مطابق شادی ہال کے قیام کے لئے 4کنال کا رقبہ ہونا ضروری ہے اور اس کی کمرشلائزیشن بھی لازم ہے قبل ازیں اس سے پہلے رقبہ کم رکھا گیا تھا لیکن شہریوں کو درپیش مسائل کے باعث اس کے رقبے میں اضافہ کردیا گیا اس وقت اگر دیکھا جائے تو کوئی بھی شادی ہال قانون کو فالو نہیں کرتا جس کے باعث رہائشی علاقوں میں غیر قانونی شادی ہالوں کے قیام کی وجہ سے وہاں کے رہائشیوں کی زندگی اجیرن ہوکر رہ گئی ہے