About Me

My photo
Peshawar Based Journalist And Lecturer Of Media Studies

Saturday, September 12, 2009

Trafic Wardens In Peshawar

صوبائی دارالحکومت پشاورمیں روزبروزبڑھتی ہوئی ٹریفک اوراالودہ فضاءنے شہریوں کوعذاب میں مبتلاکردیاہے ۔مصروف شاہراہوں پرجن میں صدرروڈ،خیبرروڈ،شیرشاہ سوری روڈ،ورسک روڈسمیت دیگرسڑکوں پرٹریفک کاجم غفیرنظرآتاہے جگہ جگہ ٹوٹے ہوئے اشارے ،ٹریفک کااژدھام اورگاڑیوں کازہریلہ دھواں عوام کےلئے عذاب بن کررہ گیاہے ۔عالمی تنظیم ڈبلیوایچ اوکے مقررکردہ معیارسے 20گناہ زیادہ آلودگی ہوچکی ہے ایک دورتھاجب پشاورجیسے شہرمیں گاڑیاں عام نہیں تھیں اکادکاگاڑیوں سے ٹریفک کے مسائل تھے اورنہ ہی آلودگی ہوکرتی تھی ،فضاصاف اورستھری ہواکرتی تھی اورپھولوں کاشہرپشاورخوشبوﺅں می رچابساہوتاتھامگررفتہ رفتہ لوگوں کی قوت استعدادبڑھتی گئی اورہرشخص گاڑی لینے لگاجس سے ٹریفک میں اضافہ ہوتاگیااورہرسال اس میں اضافہ ہوتاجارہاہے ۔ٹریفک میں بے تحاشااضافے کی وجہ سے مسائل پیداہونے شروع ہوئے تومنصوبہ بندنہیں کی گئی بلکہ ہمیشہ سے ہی پاکستان میں منصوبہ بندی کافقدا رہاہے کوئی بھی کام پلاننگ کے تحت نہیں ہوتا،ہرکام بدنظمی اورابتری کاشکارہے ،مصروف ترین شاہراہوں پرٹریفک کامسئلہ ناسوربن چکاہے ۔روزبروزبڑھتی ہوئی ٹریفک نے نہ صرف بہت سے مسائل کوجنم دیاہے بلکہ پشاورشہرکے باسیوں کامزاج بھی متاثرکردیاہے ،ٹریفک اورٹرانسپورٹ میں بتدریج اضافہ مشکلات اورمسائل میں اضافے کاباعث بناہے مختلف لیزنگ کمپنیوں اوربینکوں کے ذریعے اوسط درجے کی شہری بھی اپنی گاڑی کی سہولت سے فیضیاب ہوئے ہیں ۔پچھلے سال پشاورمیں۔پانچ۔لاکھ گاڑیاں رجسٹرڈہوئی ہیں ،ٹریفک کے نظام کوکنٹرو ل کرنے کےلئے نیاماڈل ٹریفک پلان بنایاگیامگراب تک اس نظام نے کوئی اثرنہیں چھوڑانئے ٹریفک وارڈنزجس میں بعض پرانے اہلکاروں کوتربیت دی گئی ہے کو شہربھرکے چوراہوں پرتعینات کردیاگیاجن سے توقع کی جارہی تھی کہ وہ شہرکے ٹریفک جام کے مسائل پرقابوپالیں گے کیونکہ اس سے قبل ٹریفک پولیس کی کرپشن اوررویے سے عوام عاجزآچکی تھی ،تیل کی قیمتوں میں اضافے ٹریفک کے اژدھام کے ساتھ ساتھ شہریوں کوپولیس کانارواسلوک اورنامناسب رویہ بھی برداشت کرناپڑتاتھاجوآج بھی عوام کوبرداشت کرناپڑرہاہے مگرپہلے کی نسبت اس میں تھوڑی بہت کمی واقع ہوئی ہے ۔نئے ماڈل ٹریفک پلان کوایک سال سے زائدکاعرصہ گزرچکاہے اس میں ٹریفک اہلکاروں کوبھی کافی مشکلات کاسامناکرناپڑرہاہے اورابھی تک وہ عوام کااعتمادحاصل کرنے میںناکام ہے اگرچہ یہ ٹریفک وارڈنزاپنے کام کےلئے پرعزم اورپرجوش دکھائی دیتے ہیں مگرعوام کی رویے کی وجہ سے ان کوبھی تکلیفات کاسامناکرناپڑرہاہے کیونکہ کوئی بھی قانون کی پاسداری نہیں کررہاعوام ان وارڈنزکے ساتھ بدتمیزی کے ساتھ پیش آتے ہیں جس سے ٹریفک اہلکارپریشانی کاشکارہے ۔پولیس اہلکاروں کی چوکوں پرتعیناتی کے باوجودشہربھرکے مصروف چوراہوں میں گداگروں کاسیلاب امڈآیاہے جونہی ٹریفک سگنل بندہواکوئی نہ کوئی گداگرآپ کاراستہ روکے کھڑاہوگایاپھرکوئی بچہ سامان فروخت کرتے ہوئے سٹاپ کوسیل پوائنٹ بنالے گا۔صوبے کے حالات کی تناظرمیں یوں گداگروں کادندناتے پھرنااورٹریفک سگنل پران کاجمگھٹاکسی بھی ممکنہ تخریب کاری اوردہشت گردی کاپیش خیمہ بن سکتاہے ٹریفک پولیس اہلکاروں ان گداگروں اورخوانچہ فروشوں کوسڑکوں سے دوررکھنے کےلئے خصوصی آرڈرزدئیے گئے ہیں مگریہ اہلکاران کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ان کوکنٹرول کرنے میں ناکامی کاشکارنظرآتے ہیں کیونکہ سان کوا۱۱یک ساتھ دودوکام کرنے پڑتے ہیں ایک طرف ٹریفک کوکنٹرول کرناپڑتاہے تودوسری جانب گداگروں کوسگنلزسے ہٹاناہوتاہے ۔ایک طرف گداگروں کےلئے دردسربنے ہوئے ہیں تودوسری جانب صوبائی وزراءکاوی آئی پی موومنٹ ان کےلئے دردسرثابت ہوتاہے ۔دن میں کئی کئی مرتبہ کسی نہ کسی وزیرکےلئے ٹریفک کے نظام کوتعطل کاشکارکرناپڑتاہے کیونکہ ان شاہراہوں کووزیرمحترم کے گزرگاہ کاشرف حاصل ہوتاہے اورہرمرتبہ عوام کوہی پریشانی اٹھانی پڑتی ہے ۔وی آئی پی پروٹوکول کےلئے ٹریفک کے الیکٹرانک سگنل کوکبھی کبھاربندکیاجاتاہے اورٹریفک کومینولی کنٹرول کیاجاتاہے ۔ٹریفک کے بہاﺅمیں بندش ٹریفک کے رش کاسبب بنتی ہے اورٹریفک وارڈنزکےلئے ٹریفک کاسیلاب کوروکنااورسنبھالنامشکل ہوجاتاہے اسی طرح قانون کے اندرکا م کرنے والے قانون کوتوڑنااپنافرض سمجھتے ہی اورروزانہ کوئی نہ کوئی بااثرشخص قانون کوتوڑکرٹریفک میں خلل پیداکرتاہے جن کوکوئی روکنے ٹوکنے والانہیں اس وقت پشاور میں گزرتے ہوئے ہر گھنٹے کے ساتھ سڑک پر آٹھ نئی گاڑیوں کا اضافہ ہورہا ہے۔ اور اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ٹریفک مسائل میں اضافے کی رفتار کیا ہے۔پاکستان میں ہر قسم کی موٹر گاڑیوں کی تعداد پیتالیس لاکھ کے قریب ہے جبکہ اس تعداد کا تقریبا ایک تہائی یعنی چودہ لاکھ گاڑیاں صرف پشاور میں چلتی ہیں۔ ایک جانب تجاوزات بڑھ رہے ہیں اور دوسری جانب پارکنگ کا انتظام نہیں ہے جس سے سڑکیں تنگ اور ٹریفک جام رہتا ہے۔ مرکزی، صوبائی اورپشاور کی سٹی حکومت نے کئی منصوبے شروع کیے ہیں۔ لوگ بڑی عمارتیں بناتے ہیں لیکن نقشے کے مطابق پارکنگ نہیں بناتے۔ دنیا میں سگنل سسٹم ایسا ہوتا ہے کہ مناسب رفتار سے چلنے والی گاڑی کو تمام سگنل کھلے ملتے ہیں لیکن پشاور میں ایسا نہیں ہے پشاو ر میں ٹریفک کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ بسوں کے ڈرائیور مسافروں کو اٹھانے کے لیے جہاں مسافر ہاتھ دیتا ہے گاڑی روک دیتے ہیں۔ٹریفک اہلکاروں کے رشوت لینے کے بارے میں ایک ٹیکسی ڈرائیورگل شیر نے کہا کہ زیادہ تنخواہوں کے باوجود بھی مختلف بہانوں سے پولیس اہلکار پیسے مانگتے ہیں اور وہ چالان کی بھاری رقم سے بچنے کے لیے پندرہ بیس روپے ان کی جیب میں ڈال دیتے ہیں، انہوں نے کہا کہ ٹریفک جام کرنے کا سب سے زیادہ ذمہ دار بسوں، کوچز، منی بسوں اور ٹرکوں کے ڈرائیور ہیںاور بڑی ذمہ داری ٹریفک انتظامیہ کی بھی ہے۔ ان کے مطابق کئی بار انتہائی ایمرجسنی کی صورت میں ایمبولینس کو راستہ نہیں ملتا ارو ٹریفک والے اس کا نوٹس نہیں لیتے جس کی وجہ سے بعض اوقات مریض ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی مر جاتے ہیںحکومتی سطح پرٹریفک اورٹرانسپورٹ کی بہتری کےلئے جواعلانات سننے میں آئے ہیں وہ محض نعرے ہی ثابت ہوئے ہیں ان کے کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آئے ۔اس میں شہریوں کارویہ بھی نہایت ہی مایوس کن ہے ۔اس سال قانون کی خلاف ورزی کی مدمیں ہونے والے چالان کی شرح پچھلے سالوں سے زیادہ رہی ،ٹریفک پولیس کوگوکہ تنخواہیں بڑھادی گئیں ہیں مگرعوام کی جانب سے ان اہلکاروں کے خلاف بھی شکایتیں سننے میں آئیں کہ صرف وردی بدل گئی ہے چہرے اورکرتوت وہی پرانے ہیں ۔اب بھی اہلکاردھڑلے سے کمائی کررہے ہیں جس کاکوئی تدارک نہیں کیاجاسکتا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ قومی سطح پرایسی مہم چلائی جائے جس میں عوام کوباورکرایاجائے کہ وہ قانون کی پاسداری کریں کیونکہ یہ پرامن معاشرے کےلئے جنرلایننک ہے اس کے ساتھ ساتھ موجودہ طبقاتی تقسیم اوروی آئی پی پروٹوکول جیسے عوام کی بھی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے اس ضمن میں ہرشخص کوحکومت کواورمیڈیاکواپناکرداراداکرناہوگا۔ضرورت اس بات کی بھی یقینی ہے کہ ٹریفک کے قوانین سے آگاہی کے اسباق کونصاب میں شامل کیاجائے کیونکہ صرف سڑک پرگاڑی چلانے والانہیں بلکہ پیدل چلنے والابھی دونوں کےلئے قانون کی پاسداری بہرحال ضروری ہے ۔
سائیڈ سٹوری
پشاور شہر میں اس وقت کینٹ ،کوہاٹ روڈ،خیبر بازار،شیرشاہ سوری روڈسمیت گمج ،کوہاٹی اور جیل روڈ پر صبح ہی سے گاڑیوں کا رش شروع ہوجاتا ہے شیر شاہ سوری روڈ پر پریس کلب کے سامنے روز دس بجے سے تین بجے تک مظاہروں کی بھرمار ہوتی ہے جس کی وجہ سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے اسی طرح وزراءکی صوبائی اسمبلی آمد کی وجہ سے جیل روڈ پر بھی ٹریفک ہر وقت جام رہتی ہے اور اس کا اثر پورے شہر کی شاہراہوں پر اثر پڑتا ہے شہر میں ہر روز ہزاروں کی تعداد میں نئی گاڑیوں کی رجسٹریشن ہورہی ہے اس کے علاوہ دوسرے شہروں اور قصبوں سے بھی روزانہ شہر میں ہزاروں کی تعداد میں گاڑیاں داخل ہورہی ہیںیہ گاڑیاں بھی ٹریفک کے مسائل پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہیں شہر مےں غےرقانونی طرےقے سے چلنے والے ان گاڑےوں کے مالکان کے پاس نہ توروٹ پرمٹ اورنہ لائسنس حتیٰ کہ بعض کے پاس رکشے کے کاغذات بھی نہےں ہوتے۔ مقامی تےارکردہ چنگ چی اور صدرروزگااسکےم کے تحت دی جانے والے رکشوں کی تو سرے رجسٹرےشن بھی نہےں ہوئی ہے اور قانون کے رکھوالوں کی پرواکئے بغےرغےرقانونی طرےقے سے شہر کے مخلف سڑکوں پررواں دواںہےں۔ ےہی صورتحال بسوں ،وےگنوں اورمنی بسوں کابھی ہے جن کی کی اکثرےت بھی غےرقانونی طرےقے سے کام کر ہی ہےں لےکن ٹرےفک پولےس اوررےجنل ٹراسپورٹ اتھارٹی نے اس صورت حال پر مکمل خاموشی اختےار کررکھی ہےں اور ابھی تک اس معاملے مےں کوئی کاروائی نہےں کی ہے۔ شہر مےں چلنے والے نجی اور سرکاری گاڑےوں مےں رواں سال کافی حدتک اضافہ ہوگےا ہے جو پچھلے سال کے سوفےصد بنتاہے۔ شہر میں تاجر برادری نے دکانوں کے آگے تھڑے قائم کر رکھے ہیں جب کہ ان کی گاڑیاں بھی ان کے دکانوں کے سامنے کھڑی ہوتی ہیں جس سے بھی ٹریفک کے نظام میں خلل پیدا ہورہا ہے تجاوزات کی بھر مارکی وجہ سے جابجا ٹریفک جام رہتی ہے جس میں موجودہ حکومت اس ٹریفک کے اژدہام کو کنٹرول کرنے میں مکمل طور پر ناکامی سے دوچار ہوچکی ہے
سائیڈ سٹوری
پشاور میں محکمہ اےکسائز اےنڈ ٹےسےشن کے پاس مارچ2006 سے2007 تک تےن لاکھ کے قرےب گاڑےاں رجسٹر ہو ئیںجبکہ 2007 سے 2008 تک شہر مےںپانچ لاکھ اسی ہزار گاڑےاں رجسٹرڈ ہوئی جس کی تعداد پہلے کی نسبت سو فےصد ذےادہ ہے۔ اےک اندازے کے مطابق پشاور مےں چلنے والے نئی گاڑوےوں مےں اسی فےصدبےنک کی گاڑےاں ہے تاہم اس مےں تعجب کی بات ےہ ہے کہ مختلف حادثات مےں تباہ ہونے والی گاڑےوں کی رجسٹرےشن فہرست محکمہ اےکسائز کے پاس نہےں ہے جس کی آڑ مےں اکثر لوگوں اس رجسٹرےشن پر دونمبر گاڑےاؓں استعمال کررہے ہےں۔پچھلے دوسالوں میں شہر مےں گاڑےوں کی تعداد میں اضافے کی بڑی وجہ بےنکوں کی طرف سے لےز پر دی جانے والی گاڑےاں ہےں جس نے گاڑی کی خرےد کو انتہائی آسان بناےاہے
سائیڈ سٹوری
صوبائی دارلحکومت پشاور میںرےجنل ٹراسپورٹ اتھارٹی نے8243 ٹوسٹروک رکشوں،100 فورسٹروک رکشوں،2316 منی بسوں، وےگنوں جبکہ2560 موٹر کارٹےکسےوں کو روٹ پر مٹ جاری کئے ہےں اور کئی عرصہ سے شہر کے رورل اےرےا مےں نئی روٹ پرمٹ پر پابندی ہے تاہم شہر مےں اس وقت رکشوں کی تعداد پچاس ہزار، موٹر کارٹےکسےوں کی تعداد دس ہزار اور منی اور بڑی بسوں کی تعداد بارہ ہزار سے زائد ہے جو حکومت کے لئے لمحہ فکرےہ ہے ۔
سائیڈ سٹوری
پشاور شہر میں ٹریفک پولیس کی ناکامی میں ایک وجہ پشاور شہر کے مختلف چوکوں میں ٹریفک سگنلوں کی خرابی اور اکثر علاقوں میں سیکورٹی خدشات کے پیش نظر سڑکوں کو بند کرنا ہے جس کی وجہ سے ٹریفک وارڈن ٹریفک کو کنٹرول کرنے سے قاصر ہیں اس وقت سب سے زیادہ سڑک اسمبلی کے نزدیک سورے پل کے ساتھ ،ڈینز پلازہ کے ساتھ ایف سی چوک اور شعبہ بازار میں جام رہتا ہے جس سے عوام کو خاصی تکلیف کا سامنا کرنا پڑرہا ہے پندرہ منٹ کا سفر ایک گھنٹے اور دو گھنٹوں پر محیط ہوگیا ہے ٹریفک کو کنٹرول کرنا پشاور کی ٹریفک وارڈن کی بس سے باہر ہوگیا ہے

No comments:

Post a Comment