About Me

My photo
Peshawar Based Journalist And Lecturer Of Media Studies

Wednesday, January 5, 2011

Mohalla Sethian


One of the oldest parts of the city situated in the heart of Peshawar, Mohalla Sethian presents a fine series of 18th and 19th century architecture. It depicts a mixed artisanship of Bukhara, Kashmir, Golkanda and Iranian cultures. 1

The roofs of these palatial mansions or havelis located in Bazaar-i-Kalan are connected to each other by wooden bridges, depicting a kaleidoscopic world inside the weather-beaten, brick-walled houses. The havelis speak volumes about the aesthetic sense and love for embellishments of their once-rich occupants. 2

The small Kashmir bricks known as Waziri were used in the Mughal era from Lahore to Agra. The use of limestone, colourful glasswork, embossed settings of flowers on wooden doors, windows, frames, arches and columns and aroosi engraved by Bukhara artisans take any visitor to the bygone days when Peshawar was ruled by exiled Afghan princes. 3

Sethis were the businessmen of Peshawar. These traders earned huge profits in trade with India, Afghanistan and Central Asia. The palatial residence of the Sethis, built in 1882 by Haji Ahmad Gul, is proof of this fact. 4

Ahmad Hasan Dani, in his book Peshawar - Historic City of the Frontier, describes the palatial residence of the Sethis. He says: "It is a highly-embellished building in the typical style of the domestic architecture of a rich man, presenting highly-carved wooden doors, balconies, a mirrored and painted reception room with open upper storeys to catch the fresh breeze and underground rooms in two stages for protection from the summer heat. A highly-carved wooden doorway leads into a court where business was transacted. 5

A bent passage gives access to the interior. The main house forms round an open court, 32x30, paved with bricks. The surrounding rooms show highly-carved wooden arches resting on pillars with panels showing variegated motifs...the whole building gives an appropriate idea of the old type of houses." 6

The three-storey building consisting of a tehkhana, balakhana and a dalan opening through a triple-arched entrance has a colourfully-painted ceiling. An interesting feature of these buildings is the colourful ceilings designed and painted in different colours in every room. The variety in design and paint of the ceiling and colour combination is awe-inspiring. 7

The cut-glass fixed on the walls reflects the colourful panels embellished with antiques and vases. Hundred-year-old chandeliers in blue and yellow, imported from Belgium, enhance the beauty of the room.Muhalla Sethian would have attracted more tourists if it were open to them, but it is still inhabited by the Sethis and the beauty and grandeur is inaccessible to the public. This old and historic Muhalla should be preserved.

Wednesday, December 29, 2010

Pakistan most dangerous for journalists

Pakistan most dangerous for journalists: Monitor



With 12 journalists killed in 2010, Pakistan tops the list of countries where journalists remain in perpetual danger even though democracy returned in 2008, according to the Media Monitor for 2010 launched by South Asia Media Commission simultaneously in Islamabad and Lahore on Tuesday (December 28, 2010).

The Media Monitor, published each year, reports on the quality of journalism as it develops each year in South Asia, including Pakistan.

A four-member presidium with senior journalist Afzal Khan in the chair released the summary of the Monitor.

Journalist Imtiaz Gul, Executive Director of Center for Research and Security Studies; SAFMA Director Ashfaq Saleem Mirza and journalist Matiullah Jan were three other members of the presidium.

The first part of the report dealing with the situation in Pakistan titled ‘Still dangerous despite Freedom’ states that with 12 journalists and one media worker killed in 2010, Pakistan was among the top position holders in the list of ‘most dangerous countries’ in the world because the media here was increasingly coming under attack and journalists were becoming victims of both state and non-state actors in the Federally Administered Tribal Areas (Fata) and Baluchistan.’

The Monitor adds that half of the journalists died as a result of target killings that had become quite common.

Those killed while performing duties [as journalists] included Ashiq Ali Magsi (Mehran TV), Faiz M. Khan Sasoli (Independent News of Pakistan), Haji Misri Khan Orakzai (of Hangu District), Mujeebur Rahman Siddique (Pakistan), Abdul Hameed Hayatan (Royal TV) M. Khan Sasoli (President Khuzdar Press Club). They were killed while on coverage duty and were specially targeted by murderers, including a number of banned outfits.

The Monitor also highlighted the fact that “death of these journalists showed how difficult and dangerous it had become to file reports in certain areas of the country.”

It was acknowledged in the report, that the Pakistan media had won current freedom after a long democratic struggle, in fact after the restoration of democracy, and that politicians were generally tolerant of the media.

Shared By Rafiullah Internews Peshawar

Monday, December 20, 2010

پشاور پریس کلب پر خود کش حملہ ایک سال گزرگیا اے وسیم خٹک

22دسمبر 2009 کا دن میری زندگی کا ایک بدترین دن ہے جس دن والدین اور گھرو الوں کی دعاؤں سے ہم کو نئی زندگی ملی ورنہ آج ہم بھی منوں مٹی تلے ہوتے یہ وہ دن تھا جس دن پشاور پریس کلب پر خودکش دھماکہ ہوا تھا جس میں چار افراد سمیت بیس افراد زخمی ہوئے تھے مگر جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے کیونکہ دھماکے سے کچھ لمحے پہلے ہم پریس کلب میں داخل ہوئے تھے اس دن کا تصور کرتے ہی آج بھی میرے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں وہ تصور ہی دل کو ہلا دینے کے لیئے کافی ہوتا ہے وہ دن بھی عام دنوں کی طرح ایک دن تھا جب روزنامہ مشرق میں رپورٹر کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے تھے اور ہمارے ذمے پریس کلب کی روٹین نیوز بھی ہوا کرتی تھی پریس کلب وہ جگہ ہے جہاں عموما غریب لوگ اپنے مسائل کو حکومتی زعماء تک پہنچاتے ہیں جن کوحکومتی اداروں پولیس ،واپڈا یا دیگر محکموں سے مسائل ہوتے ہیں وہ اپنا دکھڑا اخباری نمائندوں کے سامنے بیان کرتے ہیں جن کو اخباری نمائندے نمایاں جگہوں پر کوریج دیتے ہیں بہت سو کے مسائل حل بھی ہوجاتے ہیں اور بہت سو کے مسائل اعلی حکام کے پاس پہنچ جاتے ہیں یا پھر سیاسی رہنماء عوام کو حکومتی نمائندوں کے کرپشن کو بے نقاب کرنے کے لئے پریس کلب کا سہارا لیتے ہیں پریس کلب ہر علاقے میں عام کی نمائندگی کے لئے بناہو اہوتا ہے کیونکہ ان کا ڈائریکٹ حکومتی عہدیداروں سے رابطہ نہیں ہوتا تو وہ اخبارات کا سہار ا لے کر حکومتی کرتا دھرتاؤ کو باخبر کرتے ہیں اور پشاور پریس کلب کو ایک تاریخی حثییت حاصل ہے پشاور پریس کلب کی تاریخی حیثیت پر اگر نظر دوڑائی جائے تو یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ سیاسی جدوجہد کی 1960میں پشاور پریس کلب محکمہ اطلاعات کی وساطت سے سابقہ ڈینز ہوٹل میں پریس روم کے نام سے قائم ہو اتھا اور اپر1964میں چوک یادگار میں واقع میونسپل کمیٹی میں پریس کلب قائم ہوا 1967میں میونسپل کمیٹی منہدم ہونے کے بعد پشاور 8سال تک پریس کلب سے محروم رہا 1974میں عجائب گھر کے ایک حصے میں باقاعدہ طور پر پریس کلب قائم کیا گیا جس کے بعد 1995/96میں سردار مہتاب خان عباسی کی حکومت نے پریس کلب کے لئے زمین دینے کی منظوری دی اور2001میں اس نئے پریس کلب کا افتتاح ہوا یوں تو ہر دور میں پریس کلبوں پر حملوں اور تھوڑ پھوڑ کے واقعات رونما ہوئے ہیں پشاور پریس پر بھی امیر مقام اور اس کے ساتھیوں نے ایک بار حملہ کیا تھا جس کامقدمہ آج بھی چل رہا ہے مگر ملکی تاریخ میں پریس کلب پر خودکش حملے کی مثال نہیں ملتی اوریوں پشاور پریس کلب پر ہونے والا خودکش حملہ ملکی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلے واقعے کی حیثیت اختیار کر گئی ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پشاور پریس کلب کا ایک اہم رول رہا خواہ وہ گلف وار ہو افغان روس کی جنگ ہو یا پھر 9/11کے بعد کے حالات ہوں پشاور پریس کلب اور اس کے ساتھ منسلک صحافیوں نے جان کوہتھیلی پر رکھ کر جنگ کی رپورٹنگ کی اور عوام کو صحیح خبریں فراہم کی الیکٹرانک میڈیا کے آنے کے بعد اس کی اہمیت اور بڑھ گئی کیونکہ صحافیوں کی تعداد پہلے سے بڑھ گئی پہلے بہت کم تعداد میں صحافی پریس کلب کا رخ کرتے تھے مگر الیکٹرانک میڈیا کے آنے کے بعد کیمرہ مین ، اور ٹی وی کے لئے رپورٹنگ کرنے والے صحافی بھی میدان میں کھود پڑے اورمشرف دور حکومت میں جب دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کی گئی تو میڈیا کا رول مثبت ہی رہا اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ پرائی آگ میں پاکستان اور بالخصوص صوبہ خیبر پختونخواہ کو دھکیلا گیااور یہ وہ وقت تھا جب صرف خیبر پختونخواہ میں ہر تیسرے چوتھے روز خودکش حملہ ہونے لگتا جس میں بے گناہ افراد سیکورٹی فورسسز جان سے ہاتھ دھونے لگتے صحافی ایک دھماکے کی کوریج سے فارغ ہوتے تو دوسرے دھماکے کی رپورٹنگ کے لئے نکل پڑتے جس نے بھی 2008اور 2009میں پشاور میں صحافت کی ہے اسے اندازہ ہوگا کہ وہ کیسے دن تھے ان کو کہاں کہاں پر رونا نہیں آیا پھر وہ قت بھی آیا جب آنسو خشک ہوگئے دل مردہ ہوگئے تھے اور صرف رپورٹنگ سے غرض ہوتی باقی نعشیں پڑی ہوتی مگر دل میں ہوک نہیں اٹھتی کیونکہ دھماکے روٹین کے ہوگئے تھے اور جب کوئی کام روٹین کا ہوجائے تو پھر بندہ عادی ہوجاتا ہے بلکہ ہم نے تو اپنے ایسے دوستوں کو بھی دیکھا جب دھماکہ ہوجاتا اور معلومات ہوتی کہ چار سے پانچ بندے شہید ہوئے ہیں تو کہتے یار یہ تو پٹاخہ تھا اتنا زروردار نہ تھا اور جب کوئی خطرناک دھماکے کی اطلاع ہوتی تو ذہن ماؤف ہوجاتا ہم کو چارونا چار دھماکے کی جگہ پر ساتھی رپورٹر کے ساتھ جانا پڑتا وہاں جائے وقوعہ پر جو حالات ہوتے وہ بھی قابل غور ہوتے لوگوں میں انسانیت نا م کی چیز ہی غائب ہوگئی ہے وہ اپنے مفاد کے لئے کیا کیا نہیں کرتے یہ دیکھ کر دماغ میں گھنٹیاں بجتی کہ دھماکے میں ایک شخص مرا پڑا ہے اور یہ ان کے جیب کی تلاشی میں مصروف ہوکر اپنے لئے سامان کر رہا ہے بہت سے افراد تو پولیس کے ہتھے چڑھ بھی گئے تھے عوام کو سیکورٹی فورسسز کہتی کہ جائے وقوعہ پر نہ جاؤ کیا پتہ عسکریت پسند دوسر ادھماکہ کر لیں مگر عوام کو تو سیر کرنے کے لئے ایک جگہ مل جاتی پشاور میں کون سی جگہ بچی ہے جہاں دھماکہ نہ ہوا ہو بازار،مسجد، پولیس اسٹیشن سکول ، ہوٹل ، سی آئی اے کی بلڈنگ ، بینک ، امام بارگا ہ اور صحافی برداری کی جگہ پریس کلب بھی نشانہ بن گیا دھماکے سے دو تین مہینے پہلے ہی یہ باتیں گردش کر رہی تھیں کہ صحافی بھی ٹارگٹ ہیں جس کی صحافیوں کو دھمکیاں ملی تھیں جس کے بعد کلب کی سیکورٹی بڑھانے کے اقدامات کئے گئے تھے اور ہر قسم کے مظاہروں پر پابندی عائد کی گئی تھی دھماکے سے دو روز قبل باہر ایک کالج کے طلباء کا مظاہر ہ ہورہا تھا جس سے رپورٹرز کو پریس کلب کے صدر شمیم شاہد اور ڈیوٹی پر مامور پولیس اہلکاروں نے منع کیا تھاکہ اطلاع ہے کہ کالج کے یونفارم میں خودکش بمبار داخل ہوچکا ہے خوش قسمتی سے دھماکے کے وقت کوئی مظاہرہ نہیں ہورہا تھا اور صحافیوں کی بڑی تعدا د چترال کے سابق ایم این اے عبدالاکبر چترالی کے پریس کانفرنس کے لئے کلب میں موجودتھی اور کچھ ساتھی پولیس لائن میں پریس برینفنگ کے خاتمے کے بعد راستے میں تھے کہ 11بجکر43 منٹ پر خودکش دھماکے نے پشاور پریس کلب کے درودیوار لرزادیئے اگر خطرات موجود تھے تو صحافی برادری کے مشران جھوٹ کیوں بولتے تھے کہ ایسی کوئی بات نہیں ہماری طالبان تحریک کے رہنماؤں سے باتیں ہوتی ہیں وہ کہتے ہیں کہ صحافی ہمارے ٹارگٹ پر نہیں ہیں سو اپ لوگ بے دھڑک اپنی غیر جانبدارانہ رپورٹنگ کرتے رہیں اور یوں خطرے کو سب اچھا سمجھ کر ٹالا جاتا رہا یک دن ہماری آپس میں گفتگو ہوتی رہی کہ پریس کلب پر حملے کا خطرہ موجود ہے کیونکہ اخبارات حکومت کا ورژن لیتے ہیں اور طالبان کا اتنا ورژن نہیں لیتے کیونکہ اخبارات کو بھی پابند کیا گیا تھا کہ وہ ان عسکریت پسندوں کو ہیرو بنا کر نہ پیش کریں کہ جوں ہی دھماکہ ہو ا ان کے ترجمان کا بیان آجاتا کہ یہ ہم نے کیا ہے حالانکہ ان کو بھی بعض دھماکوں کا علم تک نہ ہوتا اور ذمہ داری قبول کر لیتے اور یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں اور خاص کر قبائلی علاقوں میں کتنی ہی غیر ملکی ایجنسیاں ملک کو توڑنے کے لئے کام کر رہی ہیں بھارت، اسرائیل ، امریکہ ،ایران ،افغانستان کی خفیہ ایجنسیاں اپنی سعی پوری کو شش میں لگی ہوئی ہیں کہ وہ پاکستان کو ڈی سٹیبلائز کریں اور اس مقصد کے لئے وہ بم دھماکے کرنے میں مصروف ہیں مگر تحریک طالبان کے رہنما ذمہ داری لے کر سارا قصہ ہی خراب کر دیتے تھے یہ بات بھی روز روشن کے لئے عیاں ہے کہ عسکریت پسند تنظیموں کے بھی غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ تعلقات ہیں اور وہ بھی ان کو استعمال کرنے کے لئے پوری زور بازو لگا رہے ہیں بات پشاور پریس کلب پر حملے کی ہورہی تھی تو بہت سے صحافیوں کو معلوم تھا کہ کسی بھی وقت پریس کلب پر حملہ ہوسکتا ہے مگر انہوں نے اس کو راز ہی رکھا صرف اس مقصد کے لئے کہ جب بلاسٹ ہوگا تو ہم کوریج سب سے پہلے کریں گے ایک نجی ٹی وی چینل کے بڑے نے اس مقصد کے لئے اپنی ڈی سی این جی کو صرف اس مقصد کے لئے وقف کیا تھا کہ وہ پریس کلب کے نزدیک ہی رہے اور دوماہ تک وہ اپنے فرائض انجام دیتے رہے مگر عین بلاسٹ کے وقت وہ دھماکے کی لائیو کوریج نہ کر سکے اور پھر عملے کو خوب سننی پڑی بتانے کا مقصد یہ ہے کہ دھماکے کے بارے میں اطلاع موجود تھی مگر اس کو اتنا سیریس نہیں لیا گیا جس کی وجہ سے چار قیمتی جانوں کا ضیاع ہوگیا جس میں ریاض چاچا اور اکاؤنٹنٹ محمد اقبال سمیت دو مزید لوگ جو پریس کلب کے سامنے سے اسی وقت گزر رہے تھے لقمہ اجل بن گئے دھماکے میں کسی بھی صحافی کو نقصان نہیں پہنچا تھا اگر خودکش حملہ آور کب کے اندر آکر عین پریس کانفرنس کے دوران خود کو اڑاتا تو بہت زیادہ نقصان ہوتا اس خودکش دھماکے میں ایک خاتون سمیت چار افراد جاں بحق ہوئے تھے جبکہ بیس سے زیادہ زخمی ہوئے تھے اس حملے سے تھوڑی دیر پہلے ہم گاؤں سے پشاور آئے تھے اور پیدل ہی ڈینز پلازہ سے پشاور پریس کلب تک سفر کیا تھا اور راستے سے ہی گھر کو فون کردیا کہ میں پریس کلب پہنچ گیا ہوں لہذا کوئی فکر نہ کریںیہی کوئی 11:36پر ہم پریس کلب میں داخل ہوگئے وہاں ہماری ملاقات ریاض الدین چاچا سے نہیں ہوئی البتہ دوسرے دوست وہاں پر موجود تھے ان سے مصافحہ کیا اور نہیں مذاقا کہا کہ ادھر ادھر نظر رکھا کریں ایسا نہ ہو کہ جنت گل یہاں داخل ہوکر ہمیں ساتھ لے جائے خودکش حملہ آور جو خود کو جنت کا دعویدار سمجھتا ہے اسے ہم دوستوں نے جنت گل کا نام دیا تھاجب کبھی دھماکہ ہوتا ہم کہتے کہ جنت گل نے پھر کام کرڈالا۔تو ان کا موقف تھا کہ بے فکر رہیں آپ اپنی پیشہ ورانہ ڈیوٹی انجام دیں ہماری پوری کوشش ہوگی کہ جنت گل آپ تک نہ پہنچے انہوں نے قہوے کی آفر کی مگراس سے پہلے میرا ایک دوست پریس کلب پہنچ گیا تھا جس نے کہا تھا کہ میں کینٹین سے چائے لے کر لان میں جارہا ہوں آپ آجاؤ وہاں ،میں نے ان سے اجازت لی اور پریس کلب کے انٹرنیٹ کیفے میں پہنچ گیا جہاں پر دوسرے ساتھی بیٹھے ہوئے تھے ہمارے اخبار روزنامہ مشرق کے فوٹو گرافر گلشن عزیز جو مجھ سے پہلے پریس کلب میں بیٹھے کچھ تصویروں کو چیک کر رہے تھے انہوں نے مجھے کہا کہ وسیم ذرا میری ای میل آئی ڈی چیک کرو میں دفتر تصویریں بھیجنا چاہتا ہوں جاتی نہیں ہیں ،اسکی ای میل آئی ڈی چیک کی اور تصویروں کو ای میل کردیااور اپنی ایک میل آئی چیک کرنے کے بعد جوں ہی دروازہ کھولنا چاہا دھماکے کی آواز نے کانوں کے پردے پھاڑ دیئے سب حیرانی سے حواس باختہ ہوکر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب کیا کیا جائے مارے ہیبت کے ہم سے دروازہ نہیں کھل رہا تھا تھوڑا دروازہ جو دھماکے کے دوران کھلا تھا اس وقت چھرے صحن کی طرف شنگ کی آوازوں کے ساتھ جاتے ہوئے دکھائے دیئے انٹیرنیٹ کیفے کے باہر ٹی وی لاؤنج ،لائبریری کے شیشے ٹوٹے پڑے تھے اور پریس کلب کا ملازم امت خان کاکا زمین پر پڑے تھے جو کینتین سے کسی کے لئے چائے لارہے تھے کہ دھماکے کی وجہ سے زمین پر گر گئے مگر اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا ہم جوں ہی باہر نکلے ایک قیامت خیز منظر ہمارے سامنے تھا آنکھوں سے آنسو رواں تھے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر یہ ہوا کیا ہے اس وقت بھی اپنے کچھ صحافی دوستوں کی بے حسی دیکھنے میں آئی جب وہ دھماکے کی نیوز اپنے ٹی وی چینل کو دے رہے تھے حالانکہ ہمارے ساتھی زمین پر پڑے موت و زندگی کی کشمکش میں تھے اور ہمارے فوٹو گرافر بھائیوں میں بھی کچھ ایسے تھے جن سے انسانیت چلی گئی تھی وہ اپنے ساتھیوں کی تصویریں کھینچنے میں مصروف تھے شہید صفت غیور دھماکے کے پانچ منٹ کے بعد پہنچ گئے تھے جس نے ریسکیو آپریشن شروع کردیا تھا دھماکے سے خودکش بمبار کے چھیتڑے اڑ گئے تھے اور پریس کلب کے گیٹ سے متصل دوکمرے مکمل طور پر تباہ ہوگئے تھے دھماکے کے بعد بم ڈسپوذل سکواڈ نے رپورٹ دی کہ خودکش حملہ آور نے دس کلو گرام وزنی بارودی جیکٹ پہنی ہوئی تھی جس میں کم ازکم دو کلو چھرے تھے پولیس کے مطابق خودکش حملہ آور کے لمبے بال اور چھوٹی داڑھی تھی اور اس کے حلیے سے لگتا تھا کہ وہ وزیرستان کا ہے بمبار نے پیروں میں جرابیں اور چارسدہ کی بنی سیاہ رنگ کی چپل پہن رکھی تھی خودکش بمبار کلب کے اندر داخل ہوچکا تھا مگر شک کی بنا پر جب حوالدار نے اس کی پھر تلاشی لینی چاہی تو اس نے خو د کو دھماکے سے آڑادیا جس سے ریاض چاچا کے جسم کے چھیتڑے اڑ گئے اور درجنوں صحافیوں کو موت کے منہ میں جانے سے روک دیا،وہ جو ہر کسی کو کہتے تھے کہ آپ لوگ فکر نہ کرو جب بھی کوئی ایسی حرکت کرے گا پہلے اسے میری لاش پر سے گزرنا ہوگا پھر اپ لوگوں کی بھاری ہوگی جب تک میں یہاں پریس کلب کی گیٹ پر ڈیوٹی دونگا کسی کو بھی مجال نہیں ہے اور یہ بات ریاض چاچا نے سچ کرکے دکھائی اور خود موت کو گلے سے لگا کر ہم سب کی جان پچا لی ورنہ آج ہم میں سے بہت سے ساتھی آج یہ سال نہ دیکھتے اس دھماکے میں اکاوئنٹنٹ میاں اقبال شاہ بھی شہید ہوگئے تھے جو سردی کے باعث باہر گیٹ کے نزدیک بیٹھے ہوئے تھے کہ دھماکے کی زد میں آگئے اورہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لا کر جام شہادت نوش کرگئے پشاور پریس کلب میں ہونے والے دھماکے میں اے جی آفس پشاور کی خاتون آڈیٹر چالیس سالہ روبینہ شاہین دختر غلام غوث ساکن اندورن گنج محلہ عیسی نعلبند بھی شکار ہوگئی تھی جو گزشتہ بیس سال سے اے جی آفس میں خدمات انجام دے رہی تھی وہ دھماکے کے روز دفتر سے چھٹی کے بعد رکشہ میں گھر جارہی تھی کہ پشاور پریس کلب کے سامنے سے گزرتے ہوئے دھماکے کی زد میںآگئی اور حرکت قلب بند ہوجانے کیوجہ سے دم توڑ گئی متوفیہ کے والدین بیس سال پہلے دار فانی سے کوچ کر گئے تھے اور روبینہ نے اپنے بہن بھائیوں کی کفالت کا بیڑہ اٹھا یا ہوا تھا مگر زندگی نے وفا نہیں کی اور پشاور پریس کلب دھماکے کی نذر ہوگئی دھماکے میں صحافیوں پر جان نچھاور کرنے والے ریاض الدین کا تعلق پٹوار بالا کے ایک زمیندار گھرانے سے تعلق تھا اچھی خاصی جائیداد کے باوجود اپنی شوق کی خاطر پولیس میں بھرتی ہوا تھا ان کے خاندان والوں نے کئی بار اسے پولیس کی نوکری چھوڑنے کا کہا تھا مگر وہ کہتے تھے کہ موت سے ڈر کر بھاگنا بزدلی ہے اور مردانگی کے خلاف ہے اس کے دو بچے محمد عزیر،اور شہیر دونوں اس سانحے کی وجہ سے اپنے باپ کے سائے سے محروم ہوگئے ریاض الدین نے 1986میں پولیس میں ملازمت اختیار کی تھی جبکہ میاں اقبال شاہ جس نے کچھ عرصہ قبل ہی پریس کلب میں ملازمت اختیار کی تھی ہر کوئی اسے اسکی محنت کی وجہ سے پسند کرتاتھا اس کی موت سے جو خلا اسکے گھر والوں کے لئے پیدا ہوئی وہ کوئی نہ پر کر سکے گا ایک سال گزرنے کے باوجود پشاور پریس کلب پر خودکش دھماکے کی دھماکے کی زمہ داری کسی بھی تنظیم نے نہیں لی اور نہ ہی اس دھماکے کے ملزموں کو گرفتار کیا جاچکا ہے پریس کلب انتظامیہ نے بھی اس میں کوئی خاص رول ادا نہ کیا اور نہ ہی حکومت نے صحافیوں کے مجرموں کو پکڑنے میں انکی مدد کی اس ایک سال میں صرف اتنا کیا گیا کہ پشاور پریس کلب کو محفوظ بنانے کے لئے بم پروف کمرے بنایئے گئے باقی کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں صحافی آج بھی خطرے کے سائے تلے اپنی پیشہ ورانہ ڈیوٹیاں انجام دے رہے ہیں وہ وار زون میں جان کو خطرے میں ڈال کر عوام کو صحیح معلومات فراہم کرنے کے لئے کوششوں میں مصروف ہیں حکومت کو اور پریس کلب انتظامیہ اس بارے میں سوچنا چاہیئے خدا نہ کرے پھر سے ایسا واقعہ ہوگیا تو اس کے نتائج بہت بھیانک ہونگے

تصویر

کہنے کو تو بادشاہ انصاف پسند اور عوام کے دکھ سکھ کو سمجھنے والا تھا مگر جسمانی طور پر ایک ٹانگ سے لنگڑا اور ایک آنکھ سے کانا تھا۔
ایک دن بادشاہ نے اپنی مملکت کے ماہر مصوروں کو اپنی تصویر بنوانے کیلئے بلوا لیا۔
اور وہ بھی اس شرط پر، کہ تصویر میں اُسکے یہ عیوب نہ دکھائی دیں۔
سارے کے سارے مصوروں نے یہ تصویر بنانے سے انکار کر دیا۔
اور وہ بھلا بادشاہ کی دو آنکھوں والی تصویر بناتے بھی کیسے جب بادشاہ تھا ہی ایک آنکھ سے کانا،
اور وہ کیسے اُسے دو ٹانگوں پر کھڑا ہوا دکھاتے جبکہ وہ ایک ٹانگ سےبھی لنگڑا تھا۔
لیکن
اس اجتماعی انکار میں ایک مصور نے کہا: بادشاہ سلامت میں بناؤں گا آپکی تصویر۔
اور جب تصویر تیار ہوئی تو اپنی خوبصورتی میں ایک مثال اور شاہکار تھی۔
وہ کیسے؟؟
تصویر میں بادشاہ شکاری بندوق تھامے نشانہ باندھے ، جس کیلئے لا محالہ اُسکی ایک (کانی) آنکھ کو بند ،
اور اُسکے (لنگڑی ٹانگ والے) ایک گھٹنے کو زمیں پر ٹیک لگائے دکھایا گیا تھا۔
اور اس طرح بڑی آسانی سے ہی بادشاہ کی بے عیب تصویر تیار ہو گئی تھی۔

کیوں ناں ہم بھی اِسی طرح دوسروں کی بے عیب تصویر بنا لیا کریں
خواہ انکے عیب کتنے ہی واضح ہی نظر آ رہے ہوا کریں!!

اور کیوں ناں جب لوگوں کی تصویر دوسروں کے سامنے پیش کیا کریں.... اُنکے عیبوں کی پردہ پوشی کر لیا کریں!!
آخر کوئی شخص بھی تو عیبوں سے خالی نہیں ہوتا!!
کیوں نہ ہم اپنی اور دوسروں کی مثبت اطراف کو اُجاگر کریں اور منفی اطراف کو چھوڑ دیں...... اپنی اور دوسروں کی خوشیوں کیلئے!!
ابنِ عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ ایک حدیث پاک کا ملخص اور مفہوم ہے کہ
(جو شخص مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا ، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا)

Thursday, October 14, 2010

PRAYING - IMPORTANT

PRAYING - IMPORTANT


This is text which you must recite while you are praying.
All this text must be recited on Arabian language.


START PRAYING NOW AND SAVE YOURSELF FROM HELL(no out from there, never)
MAY ALLAH(SWT) HAVE MERCY ON YOU LIKE IT HAD MERCY ON ME.


INTENTION
---------
Maka a sincere intention to perform the prayers purely for the sake of Allah.
Say to yourself (in any language) that you intend to offer this Salat
(Fajr, Zuhr, Asr, Maghrib or Isha), Fard, Sunnat or Witr, and the number of rakats
(example1 - I intend to offer two Rikat of Fard, Fajr prayer for Allah).
(example2 - I intend to offer two Rikat of Sunnet, Fajr prayer for Allah).

THANA - ARABIAN
---------------
Subhanaka Allah humma wa bihamdika, wa tabaraka ismuka,
wa ta'ala jadduka, wa la ilaha ghairuk"
THANA - ENGLISH
---------------
Praise and glory be to you O Allah. Blessed be Your Name, exalted be Your Majesty and Glory.
There is no God but You


TA'AWADH - ARABIAN
------------------
Audu bi Allah i mina ashaitan i errajeem
TA'AWADH - ENGLISH
------------------
I seek Allah's shelter from Satan, the condemned


TASMIAH - ARABIAN
-----------------
Bismillah i rrahman i erraheem
Al humdo lil-lahi rab-bil al ala-meen. Arrahman i rraheem.
Maliki yaum i eddeen.
Iyyaka nabudu wa iyyaka nasta een.
Ihdinas sirata almustaqeem.
Siratal lazhina anamta alaihim, ghairil maghdubi alaihim, wa la adhdhaal leen.
(Aameen)
TASMIAH - ENGLISH
-----------------
In the Name of Allah, the Beneficent, the Merciful.
Praise be to Allah, The Cherisher and Sustainer of the Worlds; Most
Gracious, Most Merciful; Master of the Day of Judgment. Thee do we worship,
and Thine aid we seek. Show us the straight way, the way of those on whom
Thou hast bestowed Thy Grace, Those whose (portion) is not wrath, And who go
not astray.


ATTAHIYAT - ARABIAN
-------------------
Attahiyat u lil Allah i wa assalawat u wa attaiyibat.
Assalam u a'laika aiyoha annabiyyu wa rahmat u Allah i wa barakatuh.
Assalam u a'laina wa a'la ebadi e llahi essaliheen.
(move your first finger up and down as shown while reciting the last part of Tashahud)
Ashehadu alla ilaha illa Allah u wa ashhadu anna Muhammadan abduhu wa rasooluh.
ATTAHIYAT - ENGLISH
-------------------
All our oral, physical and monetary ways of worship are only for Allah.
Peace, mercy and blessing of Allah be on you, O Prophet. May peace be upon
us and on the devout slaves of Allah. I testify that there is no God but
Allah and I testify that Muhammad is His slave and messenger.

SALAT ALA AN-NABI - ARABIAN
---------------------------
Allah umma salli a'la Muhammadin wa ala aali Muhummadin, kama sallaita ala
Ibraheema, wa ala aali Ibraheem, innaka hameedun majeed. Allah u mma barik
a'la Muhammadin wa ala aali Muhummadin, kama barakta ala Ibraheema, wa ala
aali Ibraheem, innaka h ameedun majeed".
SALAT ALA AN-NABI - ENGLISH
---------------------------
O God send your Mercy on Muhammad and his posterity as you sent Your mercy
on Abraham and his posterity. You are the Most Praised, The Most Glorious. O
God, send your Blessings on Muhammad and his posterity as you have blessed
Abraham and his posterity. You are the Most praised, The Most Glorious".


A SHORT PRAYER - ARABIAN
------------------------
Rubbana aatina fi uddunya hasanatun wa fi l aakherati hasah, waqina a'zabannar.
A SHORT PRAYER - ENGLISH
------------------------
Our Lord, grant us the good of this world and that of the Hereafter and
save us from the torture of Hell.


END PRAYER
----------
1)
Ya rabbi zel jelali SubnAllah -> We only Glory you
Say 33 times "SubnAllah" --> You are Gloryed.
2)
Subhanel baki daiman Al humdo lil-lahi -> Glory and thanks belong only to Allah(SWT)
Say 33 times "Al humdo lil-lahi" --> Thanks to Allah
3)
Rabbil almine teala shanuhu Allah u akbar ->
-> The Exalted is the Master of the World Allah is the greatest.
Say 33 times "Allah u akbar" --> Allah is the greatest



CALL TO PRAYER - ARABIAN - ENGLISH
----------------------------------
ALLAHU AKBAR (Allah is the greatest)
ALLAHU AKBAR (Allah is the greatest)
ALLAHU AKBAR (Allah is the greatest)
ALLAHU AKBAR (Allah is the greatest)
ASH-HADU AL-LA ILAHA ILLALLAH (I bear witness that there is no deity but Allah)
ASH-HADU AL-LA ILAHA ILLALLAH (I bear witness that there is no deity but Allah)
ASH-HADU AN-NA MUHAMMADAR RASULULAH (I bear witness that muhammad (S.A.W.) is the Messenger of Allah)
ASH-HADU AN-NA MUHAMMADAR RASULULAH (I bear witness that muhammad (S.A.W.) is the Messenger of Allah)
HAYYA ALAS SALAH (Come to prayer)
HAYYA ALAS SALAH (Come to prayer)
HAYYA ALAL FALAH (Come to your Good)
HAYYA ALAL FALAH (Come to your Good)
ALLAHU AKBAR (Allah is the greatest)
ALLAHU AKBAR (Allah is the greatest)
LA ILAHA ILLALLAH (There is no deity but Allah)
In Adhan for Fajr Salah, the following sentence is added after: HAYYA ALAL FALAH
ASSALATU KHAYRUM MINAN NAUM (Salah is better than sleep)
ASSALATU KHAYRUM MINAN NAUM (Salah is better than sleep)

On completion of the Adhan, muslims are recommended to recite:

ALLAHUMMA RABBA HADHI-HID DAWA-TIT-TAM MATI-WA-SALATIL QAE-MATI
(O Allah! Lord of this complete call and prayers of ours, by the blessing of it.)
ATI MUHAMMADANIL WASILATA WAL FADI LATA
(give to Muhammad his eternal rights of intercession,)
WAD-DARAJATAR-RAFI ATA
(distinction and highest class [in paradise].)
WAB ATH-HU MAQAMAM-MAHMUDA-NIL LADHI WA AT-TAHU
(And raise him to the promised rank you have promised him.)
IN-NAKA LA-TUKH LIFUL MIAD
(Surely you never go back on your word)

IQAMAH - ARABIAN - ENGLISH
--------------------------
ALLAHU AKBAR (Allah is the greatest)
ALLAHU AKBAR (Allah is the greatest)
ALLAHU AKBAR (Allah is the greatest)
ALLAHU AKBAR (Allah is the greatest)
ASH-HADU AL-LA ILAHA ILLALLAH (I bear witness that there is no deity but Allah)
ASH-HADU AL-LA ILAHA ILLALLAH (I bear witness that there is no deity but Allah)
ASH-HADU AN-NA MUHAMMADAR RASULULAH (I bear witness that muhammad (S.A.W.) is the Messenger of Allah)
ASH-HADU AN-NA MUHAMMADAR RASULULAH (I bear witness that muhammad (S.A.W.) is the Messenger of Allah)
HAYYA ALAS SALAH (Come to prayer)
HAYYA ALAS SALAH (Come to prayer)
HAYYA ALAL FALAH (Come to your Good)
HAYYA ALAL FALAH (Come to your Good)
QAD QAMATIS SALAH (The prayer has begun.)
QAD QAMATIS SALAH (The prayer has begun.)
ALLAHU AKBAR (Allah is the greatest)
ALLAHU AKBAR (Allah is the greatest)
LA ILAHA ILLALLAH (There is no deity but Allah)


SHORT TEXT FOR RECITING WHILE PRAYING.
THE SAME TEXT WAS USED WITH PRAYING
-----------------------------------------------------
"Subhana rabbiya al azeem"
"Glorified is my Lord, the Great"
-----------------------------------------------------
"Samia Allah u liman hamidah"
"Allah listens to him who praises Him"
"Rabbana wa laka al hamd"
"Our Lord, praise be for you only"
-----------------------------------------------------
"Subhana rubbiyal a'ala"
"Glory to Allah, the Exalted".
-----------------------------------------------------
"Rabbi eghfir lee wa rhamnee"
"O my Lord, forgive me and have Mercy on me"
-----------------------------------------------------
Assalam u a'laikum wa rahmatu Allah.
Peace and mercy of Allah be on you.
Note: This Salam (Prayer for Peace) is directed to the angels and the muslims to
our right and to the left
-----------------------------------------------------



OTHER SALAT'S
-------------
There are other Salat's which are praying only for a specific date in a year.

1) Teravih salat
This salat are praying only at RAMADAN month(every night, NON_OBLIGATORY)
and bettween Isha salat and Virt salat.
It is the same like FAJR salat but 10 times like that.
Prophet Muhammad(Peace and blessing be uppon him) said:
Who pray Ramadan salat(at night) all previous since was forgiven for him.

2) Mubarak salat's
In the year there are two Mubarak salat's
and this salat's are praying only in Mosque,
beetween, 45 minutes after sun was rised and until
afternoon(12.00 oclock).
It is praying like a FAJR salat.

MY MESSAGE TO NON MUSLIMS AND TO A PEOPLE WHO CALLED HIMSELF A MUSLIM BUT HE DO NOT PRAYING TO ALLAH ------------------------

Saturday, September 12, 2009

Trafic Wardens In Peshawar

صوبائی دارالحکومت پشاورمیں روزبروزبڑھتی ہوئی ٹریفک اوراالودہ فضاءنے شہریوں کوعذاب میں مبتلاکردیاہے ۔مصروف شاہراہوں پرجن میں صدرروڈ،خیبرروڈ،شیرشاہ سوری روڈ،ورسک روڈسمیت دیگرسڑکوں پرٹریفک کاجم غفیرنظرآتاہے جگہ جگہ ٹوٹے ہوئے اشارے ،ٹریفک کااژدھام اورگاڑیوں کازہریلہ دھواں عوام کےلئے عذاب بن کررہ گیاہے ۔عالمی تنظیم ڈبلیوایچ اوکے مقررکردہ معیارسے 20گناہ زیادہ آلودگی ہوچکی ہے ایک دورتھاجب پشاورجیسے شہرمیں گاڑیاں عام نہیں تھیں اکادکاگاڑیوں سے ٹریفک کے مسائل تھے اورنہ ہی آلودگی ہوکرتی تھی ،فضاصاف اورستھری ہواکرتی تھی اورپھولوں کاشہرپشاورخوشبوﺅں می رچابساہوتاتھامگررفتہ رفتہ لوگوں کی قوت استعدادبڑھتی گئی اورہرشخص گاڑی لینے لگاجس سے ٹریفک میں اضافہ ہوتاگیااورہرسال اس میں اضافہ ہوتاجارہاہے ۔ٹریفک میں بے تحاشااضافے کی وجہ سے مسائل پیداہونے شروع ہوئے تومنصوبہ بندنہیں کی گئی بلکہ ہمیشہ سے ہی پاکستان میں منصوبہ بندی کافقدا رہاہے کوئی بھی کام پلاننگ کے تحت نہیں ہوتا،ہرکام بدنظمی اورابتری کاشکارہے ،مصروف ترین شاہراہوں پرٹریفک کامسئلہ ناسوربن چکاہے ۔روزبروزبڑھتی ہوئی ٹریفک نے نہ صرف بہت سے مسائل کوجنم دیاہے بلکہ پشاورشہرکے باسیوں کامزاج بھی متاثرکردیاہے ،ٹریفک اورٹرانسپورٹ میں بتدریج اضافہ مشکلات اورمسائل میں اضافے کاباعث بناہے مختلف لیزنگ کمپنیوں اوربینکوں کے ذریعے اوسط درجے کی شہری بھی اپنی گاڑی کی سہولت سے فیضیاب ہوئے ہیں ۔پچھلے سال پشاورمیں۔پانچ۔لاکھ گاڑیاں رجسٹرڈہوئی ہیں ،ٹریفک کے نظام کوکنٹرو ل کرنے کےلئے نیاماڈل ٹریفک پلان بنایاگیامگراب تک اس نظام نے کوئی اثرنہیں چھوڑانئے ٹریفک وارڈنزجس میں بعض پرانے اہلکاروں کوتربیت دی گئی ہے کو شہربھرکے چوراہوں پرتعینات کردیاگیاجن سے توقع کی جارہی تھی کہ وہ شہرکے ٹریفک جام کے مسائل پرقابوپالیں گے کیونکہ اس سے قبل ٹریفک پولیس کی کرپشن اوررویے سے عوام عاجزآچکی تھی ،تیل کی قیمتوں میں اضافے ٹریفک کے اژدھام کے ساتھ ساتھ شہریوں کوپولیس کانارواسلوک اورنامناسب رویہ بھی برداشت کرناپڑتاتھاجوآج بھی عوام کوبرداشت کرناپڑرہاہے مگرپہلے کی نسبت اس میں تھوڑی بہت کمی واقع ہوئی ہے ۔نئے ماڈل ٹریفک پلان کوایک سال سے زائدکاعرصہ گزرچکاہے اس میں ٹریفک اہلکاروں کوبھی کافی مشکلات کاسامناکرناپڑرہاہے اورابھی تک وہ عوام کااعتمادحاصل کرنے میںناکام ہے اگرچہ یہ ٹریفک وارڈنزاپنے کام کےلئے پرعزم اورپرجوش دکھائی دیتے ہیں مگرعوام کی رویے کی وجہ سے ان کوبھی تکلیفات کاسامناکرناپڑرہاہے کیونکہ کوئی بھی قانون کی پاسداری نہیں کررہاعوام ان وارڈنزکے ساتھ بدتمیزی کے ساتھ پیش آتے ہیں جس سے ٹریفک اہلکارپریشانی کاشکارہے ۔پولیس اہلکاروں کی چوکوں پرتعیناتی کے باوجودشہربھرکے مصروف چوراہوں میں گداگروں کاسیلاب امڈآیاہے جونہی ٹریفک سگنل بندہواکوئی نہ کوئی گداگرآپ کاراستہ روکے کھڑاہوگایاپھرکوئی بچہ سامان فروخت کرتے ہوئے سٹاپ کوسیل پوائنٹ بنالے گا۔صوبے کے حالات کی تناظرمیں یوں گداگروں کادندناتے پھرنااورٹریفک سگنل پران کاجمگھٹاکسی بھی ممکنہ تخریب کاری اوردہشت گردی کاپیش خیمہ بن سکتاہے ٹریفک پولیس اہلکاروں ان گداگروں اورخوانچہ فروشوں کوسڑکوں سے دوررکھنے کےلئے خصوصی آرڈرزدئیے گئے ہیں مگریہ اہلکاران کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ان کوکنٹرول کرنے میں ناکامی کاشکارنظرآتے ہیں کیونکہ سان کوا۱۱یک ساتھ دودوکام کرنے پڑتے ہیں ایک طرف ٹریفک کوکنٹرول کرناپڑتاہے تودوسری جانب گداگروں کوسگنلزسے ہٹاناہوتاہے ۔ایک طرف گداگروں کےلئے دردسربنے ہوئے ہیں تودوسری جانب صوبائی وزراءکاوی آئی پی موومنٹ ان کےلئے دردسرثابت ہوتاہے ۔دن میں کئی کئی مرتبہ کسی نہ کسی وزیرکےلئے ٹریفک کے نظام کوتعطل کاشکارکرناپڑتاہے کیونکہ ان شاہراہوں کووزیرمحترم کے گزرگاہ کاشرف حاصل ہوتاہے اورہرمرتبہ عوام کوہی پریشانی اٹھانی پڑتی ہے ۔وی آئی پی پروٹوکول کےلئے ٹریفک کے الیکٹرانک سگنل کوکبھی کبھاربندکیاجاتاہے اورٹریفک کومینولی کنٹرول کیاجاتاہے ۔ٹریفک کے بہاﺅمیں بندش ٹریفک کے رش کاسبب بنتی ہے اورٹریفک وارڈنزکےلئے ٹریفک کاسیلاب کوروکنااورسنبھالنامشکل ہوجاتاہے اسی طرح قانون کے اندرکا م کرنے والے قانون کوتوڑنااپنافرض سمجھتے ہی اورروزانہ کوئی نہ کوئی بااثرشخص قانون کوتوڑکرٹریفک میں خلل پیداکرتاہے جن کوکوئی روکنے ٹوکنے والانہیں اس وقت پشاور میں گزرتے ہوئے ہر گھنٹے کے ساتھ سڑک پر آٹھ نئی گاڑیوں کا اضافہ ہورہا ہے۔ اور اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ٹریفک مسائل میں اضافے کی رفتار کیا ہے۔پاکستان میں ہر قسم کی موٹر گاڑیوں کی تعداد پیتالیس لاکھ کے قریب ہے جبکہ اس تعداد کا تقریبا ایک تہائی یعنی چودہ لاکھ گاڑیاں صرف پشاور میں چلتی ہیں۔ ایک جانب تجاوزات بڑھ رہے ہیں اور دوسری جانب پارکنگ کا انتظام نہیں ہے جس سے سڑکیں تنگ اور ٹریفک جام رہتا ہے۔ مرکزی، صوبائی اورپشاور کی سٹی حکومت نے کئی منصوبے شروع کیے ہیں۔ لوگ بڑی عمارتیں بناتے ہیں لیکن نقشے کے مطابق پارکنگ نہیں بناتے۔ دنیا میں سگنل سسٹم ایسا ہوتا ہے کہ مناسب رفتار سے چلنے والی گاڑی کو تمام سگنل کھلے ملتے ہیں لیکن پشاور میں ایسا نہیں ہے پشاو ر میں ٹریفک کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ بسوں کے ڈرائیور مسافروں کو اٹھانے کے لیے جہاں مسافر ہاتھ دیتا ہے گاڑی روک دیتے ہیں۔ٹریفک اہلکاروں کے رشوت لینے کے بارے میں ایک ٹیکسی ڈرائیورگل شیر نے کہا کہ زیادہ تنخواہوں کے باوجود بھی مختلف بہانوں سے پولیس اہلکار پیسے مانگتے ہیں اور وہ چالان کی بھاری رقم سے بچنے کے لیے پندرہ بیس روپے ان کی جیب میں ڈال دیتے ہیں، انہوں نے کہا کہ ٹریفک جام کرنے کا سب سے زیادہ ذمہ دار بسوں، کوچز، منی بسوں اور ٹرکوں کے ڈرائیور ہیںاور بڑی ذمہ داری ٹریفک انتظامیہ کی بھی ہے۔ ان کے مطابق کئی بار انتہائی ایمرجسنی کی صورت میں ایمبولینس کو راستہ نہیں ملتا ارو ٹریفک والے اس کا نوٹس نہیں لیتے جس کی وجہ سے بعض اوقات مریض ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی مر جاتے ہیںحکومتی سطح پرٹریفک اورٹرانسپورٹ کی بہتری کےلئے جواعلانات سننے میں آئے ہیں وہ محض نعرے ہی ثابت ہوئے ہیں ان کے کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آئے ۔اس میں شہریوں کارویہ بھی نہایت ہی مایوس کن ہے ۔اس سال قانون کی خلاف ورزی کی مدمیں ہونے والے چالان کی شرح پچھلے سالوں سے زیادہ رہی ،ٹریفک پولیس کوگوکہ تنخواہیں بڑھادی گئیں ہیں مگرعوام کی جانب سے ان اہلکاروں کے خلاف بھی شکایتیں سننے میں آئیں کہ صرف وردی بدل گئی ہے چہرے اورکرتوت وہی پرانے ہیں ۔اب بھی اہلکاردھڑلے سے کمائی کررہے ہیں جس کاکوئی تدارک نہیں کیاجاسکتا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ قومی سطح پرایسی مہم چلائی جائے جس میں عوام کوباورکرایاجائے کہ وہ قانون کی پاسداری کریں کیونکہ یہ پرامن معاشرے کےلئے جنرلایننک ہے اس کے ساتھ ساتھ موجودہ طبقاتی تقسیم اوروی آئی پی پروٹوکول جیسے عوام کی بھی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے اس ضمن میں ہرشخص کوحکومت کواورمیڈیاکواپناکرداراداکرناہوگا۔ضرورت اس بات کی بھی یقینی ہے کہ ٹریفک کے قوانین سے آگاہی کے اسباق کونصاب میں شامل کیاجائے کیونکہ صرف سڑک پرگاڑی چلانے والانہیں بلکہ پیدل چلنے والابھی دونوں کےلئے قانون کی پاسداری بہرحال ضروری ہے ۔
سائیڈ سٹوری
پشاور شہر میں اس وقت کینٹ ،کوہاٹ روڈ،خیبر بازار،شیرشاہ سوری روڈسمیت گمج ،کوہاٹی اور جیل روڈ پر صبح ہی سے گاڑیوں کا رش شروع ہوجاتا ہے شیر شاہ سوری روڈ پر پریس کلب کے سامنے روز دس بجے سے تین بجے تک مظاہروں کی بھرمار ہوتی ہے جس کی وجہ سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے اسی طرح وزراءکی صوبائی اسمبلی آمد کی وجہ سے جیل روڈ پر بھی ٹریفک ہر وقت جام رہتی ہے اور اس کا اثر پورے شہر کی شاہراہوں پر اثر پڑتا ہے شہر میں ہر روز ہزاروں کی تعداد میں نئی گاڑیوں کی رجسٹریشن ہورہی ہے اس کے علاوہ دوسرے شہروں اور قصبوں سے بھی روزانہ شہر میں ہزاروں کی تعداد میں گاڑیاں داخل ہورہی ہیںیہ گاڑیاں بھی ٹریفک کے مسائل پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہیں شہر مےں غےرقانونی طرےقے سے چلنے والے ان گاڑےوں کے مالکان کے پاس نہ توروٹ پرمٹ اورنہ لائسنس حتیٰ کہ بعض کے پاس رکشے کے کاغذات بھی نہےں ہوتے۔ مقامی تےارکردہ چنگ چی اور صدرروزگااسکےم کے تحت دی جانے والے رکشوں کی تو سرے رجسٹرےشن بھی نہےں ہوئی ہے اور قانون کے رکھوالوں کی پرواکئے بغےرغےرقانونی طرےقے سے شہر کے مخلف سڑکوں پررواں دواںہےں۔ ےہی صورتحال بسوں ،وےگنوں اورمنی بسوں کابھی ہے جن کی کی اکثرےت بھی غےرقانونی طرےقے سے کام کر ہی ہےں لےکن ٹرےفک پولےس اوررےجنل ٹراسپورٹ اتھارٹی نے اس صورت حال پر مکمل خاموشی اختےار کررکھی ہےں اور ابھی تک اس معاملے مےں کوئی کاروائی نہےں کی ہے۔ شہر مےں چلنے والے نجی اور سرکاری گاڑےوں مےں رواں سال کافی حدتک اضافہ ہوگےا ہے جو پچھلے سال کے سوفےصد بنتاہے۔ شہر میں تاجر برادری نے دکانوں کے آگے تھڑے قائم کر رکھے ہیں جب کہ ان کی گاڑیاں بھی ان کے دکانوں کے سامنے کھڑی ہوتی ہیں جس سے بھی ٹریفک کے نظام میں خلل پیدا ہورہا ہے تجاوزات کی بھر مارکی وجہ سے جابجا ٹریفک جام رہتی ہے جس میں موجودہ حکومت اس ٹریفک کے اژدہام کو کنٹرول کرنے میں مکمل طور پر ناکامی سے دوچار ہوچکی ہے
سائیڈ سٹوری
پشاور میں محکمہ اےکسائز اےنڈ ٹےسےشن کے پاس مارچ2006 سے2007 تک تےن لاکھ کے قرےب گاڑےاں رجسٹر ہو ئیںجبکہ 2007 سے 2008 تک شہر مےںپانچ لاکھ اسی ہزار گاڑےاں رجسٹرڈ ہوئی جس کی تعداد پہلے کی نسبت سو فےصد ذےادہ ہے۔ اےک اندازے کے مطابق پشاور مےں چلنے والے نئی گاڑوےوں مےں اسی فےصدبےنک کی گاڑےاں ہے تاہم اس مےں تعجب کی بات ےہ ہے کہ مختلف حادثات مےں تباہ ہونے والی گاڑےوں کی رجسٹرےشن فہرست محکمہ اےکسائز کے پاس نہےں ہے جس کی آڑ مےں اکثر لوگوں اس رجسٹرےشن پر دونمبر گاڑےاؓں استعمال کررہے ہےں۔پچھلے دوسالوں میں شہر مےں گاڑےوں کی تعداد میں اضافے کی بڑی وجہ بےنکوں کی طرف سے لےز پر دی جانے والی گاڑےاں ہےں جس نے گاڑی کی خرےد کو انتہائی آسان بناےاہے
سائیڈ سٹوری
صوبائی دارلحکومت پشاور میںرےجنل ٹراسپورٹ اتھارٹی نے8243 ٹوسٹروک رکشوں،100 فورسٹروک رکشوں،2316 منی بسوں، وےگنوں جبکہ2560 موٹر کارٹےکسےوں کو روٹ پر مٹ جاری کئے ہےں اور کئی عرصہ سے شہر کے رورل اےرےا مےں نئی روٹ پرمٹ پر پابندی ہے تاہم شہر مےں اس وقت رکشوں کی تعداد پچاس ہزار، موٹر کارٹےکسےوں کی تعداد دس ہزار اور منی اور بڑی بسوں کی تعداد بارہ ہزار سے زائد ہے جو حکومت کے لئے لمحہ فکرےہ ہے ۔
سائیڈ سٹوری
پشاور شہر میں ٹریفک پولیس کی ناکامی میں ایک وجہ پشاور شہر کے مختلف چوکوں میں ٹریفک سگنلوں کی خرابی اور اکثر علاقوں میں سیکورٹی خدشات کے پیش نظر سڑکوں کو بند کرنا ہے جس کی وجہ سے ٹریفک وارڈن ٹریفک کو کنٹرول کرنے سے قاصر ہیں اس وقت سب سے زیادہ سڑک اسمبلی کے نزدیک سورے پل کے ساتھ ،ڈینز پلازہ کے ساتھ ایف سی چوک اور شعبہ بازار میں جام رہتا ہے جس سے عوام کو خاصی تکلیف کا سامنا کرنا پڑرہا ہے پندرہ منٹ کا سفر ایک گھنٹے اور دو گھنٹوں پر محیط ہوگیا ہے ٹریفک کو کنٹرول کرنا پشاور کی ٹریفک وارڈن کی بس سے باہر ہوگیا ہے

Friday, September 4, 2009

مرکزی حکومت این جی اوز کارکردگی مانیٹر کرنے کی ہدایات

مرکزی حکومت نے چاروں صوبوں سمیت ازاد کشمیر میں این جی اوزکی کارکردگی مانیٹر کرنے کے لئے تحقیقات کا آغاز کر لیا جبکہ غیر رجسٹرڈ این جی اوز کے خلاف سخت ایکشن اٹھانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے اس وقت ملک بھر میں غیر قانونی این اجی اوز کی تعداد ایک اندازے کے مطابق ساٹھ ہزار کے قریب ہے جن میں زیادہ تر گھوسٹ این جی اوز صوبہ سرحد اور پنجاب میں ہیں اٹھ اکتوبر 2005 ہولناک زلزلے کے بعد ان این جی اوز کی تعداد میں اضافہ ہواان میں زیادہ تر این جی اوز زلزلہ متاثرین کی مدد اور آباد کاری کے نام پر غیرملکی ڈونر ایجنسیوں سے پیسے بٹورنے کے لئے قائم کی گئی2005سے پہلے ملک بھر میں مجموعی طور پر پانچ ہزار کے قریب رجسٹرڈ غیر سرکاری تنظیمیں کام کر رہی تھیں موجودہ وقت میں وزارت سماج بہبود کے ساتھ پندرہ ہزار کے قریب این جی اوز رجسٹرڈ ہیں صوبہ سرحد میں سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ اس وقت تین ہزار اٹھ سو این جی اوز رجسٹرڈ ہیں جبکہ ایک اندازے کے مطابق 40ہزار غیر رجسٹرڈ این جی اوز صوبہ سرحد اور پنجاب میں موجود ہیں جن میں زیادہ تر صرف ناموں کی حد تک محدود ہیں جن کا کام صرف ڈونر ایجنسیوں سے پیسے بٹورنا ہے پنجاب میں 5338,سندھ میں 5006،بلوچستان میں 1403،آزاد کشمیر میں 329این جی اوز رجسٹرڈ ہیں جبکہ باقی این جی اوز کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں ذرائع کے مطابق بعض این جی اوز کی سرپرستی سیاسی رہنما کررہے ہیں جن کو ڈونرز ایجنسی کافی رقم سالانہ دیتی ہے جن کا ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر ہے ،زیادہ تر این جی اوزتعلیم،چائلڈ ویلفئیر ،خواتین کے حقوق ،قانونی امداد ،خصوصی افراد ،ماحولیات،انسانی حقوق ،امور نوجوانان ،فیملی ہیلتھ ،حفظان صحت کے نام سے رجسٹرڈ ہیں سوات اپریشن کے بعد صوبہ سرحد میں متاثرین کی مدد اور آباد کاری کے نام پر بھی بہت سی این جی اوز نے کام شروع کردیا ہے این جی اوز کی بڑھتی ہوئی تعداد اور کوئی قابل ذکر کارکردگی نہ ہونے کے باعث وزارت سماج بہبود نے گھوسٹ این جی اوز کا ڈیٹا بیس تیار کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے جن کے خلاف جلد کاروائی شروع کردی جائے گی